وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ
بادشاہ نے کہا کہ اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لئے مقرر کرلوں (١) پھر جب اس سے بات چیت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں ذی عزت اور امانت دار ہیں (٢)
حضرت یوسف کا بادشاہ سے ملنا، تمام مملکت کے انتظام کا ذمہ دار قرار پانا، پھر تعبیر کے مطابق قحط کے سالوں کا نمودار ہونا، بھائیوں کا غلہ کی طلب میں مصر آنا اور بنیامین کا حضرت یوسف کے پاس پہنچ جانا۔ (ا) جب تحقیقات کا نتیجہ آشکارا ہوگیا تو حضرت یوسف بادشاہ سے ملنے کے لیے تیار ہوگئے کیونکہ اب ان کی رہائی بادشاہ کی بخشش نہ رہی، ان کا حق ہوگئی۔ (ب) اس معاملہ نے بادشاہ کا اشتیاق اور زیادہ کردیا، اس نے خیال کیا جس شخص کی راست بازی، امانت داری اور وفائے عہد کا یہ حال ہے اس سے بڑھ کر مملکت کے کاموں کے لیے کون موزوں ہوسکتا ہے؟ پس کہا، فورا میرے پاس لاؤأ، میں اسے اپنے کاموں کے لیے خاص کرلوں گا، چنانچہ حضرت یوسف آئے اور پہلی ہی ملاقات میں اس درجہ مسخر ہوا کہ بول اٹھا، مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے، تم میری نگاہ میں بڑا مقام رکھتے ہو۔ مجھے بتلاؤ اس آنے والی مصیبت سے جس کی خبر خواب میں دی گئی ہے مملکت کیونکر بچائی جاسکتی ہے؟ حضرت یوسف نے کہا، اس طرح کہ ملک کی آمدنی کے تمام وسائل میرے ماتحت کردیے جائیں، میں علم و بصیرت کے ساتھ اس کی حفاظت کرسکتا ہوں، چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا، اور جب وہ دربار سے نکلے تو تمام مملکت مصر کے حکمران و مختار تھے۔ (ج) تورات میں ہے کہ فرعون نے یوسف کی باتیں سن کر درباریوں سے کہا، ہم ایسا آدمی کہاں پاسکتے ہیں جیسا یہ ہے اور جس میں خدا کی روح بول رہی ہے؟ پھر یوسف سے کہا، دیکھ، میں نے ساری زمینن مصر پر تجھے حکومت بخشی، فقط ایک تخت نشینی ہی میں تجھ سے اوپر رہوں گا۔ اور اس نے اپنی انگوٹھی اتار کر یوسف کو پہنا دی اور گلے میں سونے کا طوق ڈالا اور کتان کا لباس عطا کیا اور اپنی رتھ سواوری کو دی کہ شاہی رتوں میں دوسری رتھ تھی، پھر جب وہ نکلا تو اس کے آگے آگے نقیب پکارتے تھے، سب ادب سے رہو، اور فرعون نے حکم دیا یوسف کو صاحب مملکت کے لقب سے پکارا جائے۔ (پیدائش : ٣٧: ٤١) (د) حضرت یوسف کی مصری زندگی کے دو انقلاب انگیز نقطے تھے، ایک وہ جب غلام ہو کر بکے اور پھر عزیز کی نظروں میں ایسے معزز ہوئے کہ اس کے ع علاقہ کے مختار ہوگئے، دوسرا یہ کہ قید خانے سے نکلے اور نکلتے ہی وہاں پہنچ گئے کہ حکمرانی کی مسند اجلال پر جلوہ آرا نظر آئےْ پس جب پہلے انقلاب تک سرگزشت پہنچی تھی تو آیت (٢١) میں حکمت الہی کی کرشنہ سنجیوں پر توجہ دلائی تھی کہ (کذلک مکنا لیوسف فی الارض) اور اب کہ دوسرا انقلاب پیش آیا تو اسی طرح آیت (٥٦) میں فرمایا : (کذالک مکنا لیوسف فی الارض) وہاں چونکہ معاملہ مصڑ کی ابتدا ہوئی تھی اور ابھی حضرت یوسف کو حکمرانی کی دانش سیکھنی باقی تھی، اس لیے فرمایا تھا : (ولنعلمہ من تاویل الاحادیث واللہ غالب علی امرہ) یہاں چونکہ تکمیل کار کے بعد اس کا نتیجہ ظاہر ہوگیا تھا اس لیے فرمایا : (لا نضیع اجر المحسنین) یہ اس لیے ہوا کہ ہمارا قانون ہے، نیک عملی کا بیج کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ پھل لائے۔ (ہ) تورات میں ہے کہ جب یوسف بادشاہ کے پاس آیا تو اس کی عمر تیس برس کی تھی۔ (پیدائش : ٤٦: ٤١) (و) اس کے بعد جو حالات پیش آئے قرآن نے ان کی تصریح نہیں کی، کیونکہ خواب کی تعبیر میں ان کا بیان آچکا تھا اور چونکہ تعبیر سچی تھی اس لیے ظاہر تھا کہ ویسے ہی حالات پیش آئے ہوں گے اور یہ ایجاز بلاغت کی انتہا ہے۔ چنانچہ پہلے سات برس بڑھتی کے گزرے اور جو تدبیر تجویز کی تھی اسی کے مطابق انہوں نے غلہ کے ذخیرے جمع کرلی، پھر جب قحط کے سال شروع ہوئے تو وہی ذخیرے کام میں لائے گئے، اور حکومت کی جانب سے غلہ تقسیم ہونے لگا۔ تورات میں ہے کہ تمام روئے زمین پر کال تھی (پیدائش : ٥٦: ٤١) تمام روزئے زمین کا مطلب یہ ہوگا کہ مصرکے اطراف و جوانب میں بھی کال تھا اور وہاں کے باشندے بھی مصر آکر حضرت یوسف کی بخشش سے فائدہ اٹھاتے تھے، کیونکہ یقینا اس بات کا شہرہ دور دور تک پہنچ گیا ہوگا کہ مصر میں غلہ کے وافر ذخیرے موجود ہیں۔ (ز) اسی زمانے کی بات ہے کہ کنعان سے یوسف کے بھائی بھی غلہ مول لینے مصر آئے اور اس طرح اس سرگزشت کا آخر باب اپنی عجیب و غریب موعظتوں اور عبرتوں کے ساتھ ظہور میں آنا شروع ہوگیا۔ (آیت (٥٨) سے اسی کا بیان شروع ہوتا ہے۔