وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور شہر کی عورتوں میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز کی بیوی اپنے (جوان) غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لئے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے، ان کے دل میں یوسف کی محبت بیٹھ گئی ہے، ہمارے خیال میں تو وہ صریح گمراہی میں ہے (١)۔
آیت (٣٠) میں جس واقعہ کا ذکر کیا ہے، یہ حضرت یوسف کے جمال سیرت کا ایک دوسرا مظاہرہ ہے اور پہلے سے بھی زیادہ عظیم ہے، ضروری تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔ ضمنا یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ اس زمانہ کی مصری معاشرت کس درجہ شائستہ ہوچکی تھی؟ ضیافت کی مجلسیں خاص طور پر آراستہ کی جاتی تھیں۔ نشست کے لیے مسندیں لگائی جاتی تھیں کھانے کے لیے ہر شخص کے سامنے چھری رکھی جاتی تھی، مسندوں کے اہتمام کا حال اس سے معلوم ہوگیا کہ (واعتدت لھن متکا) مصر کے آثار قدیمہ اور یونانی مورخوں کی شہادت سے جو حالات روشنی میں آئے ہیں ان سے بھی اس متمدن معاشرت کی تصدیق ہوتی ہے۔ خصوصا ان نقوش سے جن میں امراء کی مجلسوں کا مرقع دکھایا گیا ہے اور جو قرآن کے ان اشارات کی پوری تفسیر ہیں۔