وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
اور یوسف کے کرتے کو جھوٹ موٹ کے خون سے خون آلود بھی کر لائے تھے، باپ نے کہا یوں نہیں، بلکہ تم نے اپنے دل ہی میں سے ایک بات بنالی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔
یوسف کے بھائیوں کا یوسف کو کنویں میں ڈال دینا، بھیڑیے کے حملے کا جھوٹا قصہ بنانا، حضرت یعقوب کا ان کے کذب پر مطلع ہوجانا مگر صبر جمیل کا شیوہ اختیار کرنا۔ صبر کے معنی شدائد جھیلنے کے ہیں، جمیل ایسی بات جو پسندیدہ ہو، پس صبر جمیل ایسا صبر ہوا جو بڑے ہی پسندیدہ طریقہ پر ہو، یعنی نہ صرف یہ کہ شدائد کا شکوہ نہ ہو بلکہ بڑی خوبی کے ساتھ جھیلے جائیں۔ شدائد کا شکوہ نہ ہو، درد و الم کی شکایت زبان پر نہ آئے، چونکہ حضرت یعقوب کو فراست نبوت سے یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ پچھلی بشارتیں یوسف ہی کے ذریعہ سے پوری ہونے والی ہیں اس لیے وہ کبھی باور نہیں کرسکتے تھے کہ اس طرح اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ پس فرمایا فصبر جمیل یعنی اس معاملہ میں حکمت الہی کا ہاتھ صاف نظر آرہا ہے۔ پس میرے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ بغیر شکوہ و شکایت کے درد فراق جھیلتا رہوں اور اس کی کارفرمائیوں کے ظہور کا انتظار کروں۔ (واللہ المستعان علی ما تصفون) آیت (١٨) میں خون آلود کرنے کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا کیونکہ اسی سے ان کا سارا جھوٹ کھل گیا تھا، انہوں نے اپنے خیال میں یہ بڑی ہوشیاری کی بات کی تھی کہ یوسف کے کرتے پر بکری کا خون لگا کر بطور شہادت کے لیے آئے لیکن یہ نہ سمجھے کہ اگر بھیڑیے نے حملہ کیا تھا تو کرتا کیسے بچ رہا؟ اس کے تو پرزے پرزے ہوجانے تھے، حضرت یعقوب نے جب کرتا دیکھا تو انہیں پورا یقین ہوگیا کہ ساری کہانی من گھڑت ہے۔ قرآن کی معجزانہ بلاغت دیکھو، حضرت یعقوب نے صرف اتنا کہہ کر کہ (سولت لکم انفسکم امرا) کس طرح ساری باتیں کہہ دیں جو اس معاملے کے لیے کہی جاسکتی تھیں؟ یعنی ان کا حسد کرنا، سازش کرنی، معاملہ کی ایک پوری صورت بنا لینی اور پھر سمجھنا اس طرح ہم کامیاب بھی ہوجائیں گے اور ہمارا جھوٹ بھی نہیں کھلے گا۔ سب کی طرف اس میں اشارے ہوگئے۔