قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
کہا اے میری قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل لئے ہوئے ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بہترین روزی دے رکھی ہے (١) میرا یہ ارادہ بالکل نہیں کہ تمہارے خلاف کرکے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں (٢) میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے (٣) میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے (٤) اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔
حضرت شعیب نے کہا اگر اللہ نے مجھ پر علم و بصیرت کی راہ کھول دی ہو اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تم ہلاکت کی طرف جارہے ہو تو بتلاؤ کیا میرا فرض نہیں ہے کہ تمہیں سلامتی کی راہ دکھاؤں؟ اس نے اپنے فضل و کرم سے مجھے رزق و دولت کی فراوانی عطا فرمائی ہے پھر کیا یہ کفران نعمت نہ ہوگا کہ ادائے فرض میں کوتاہی کروں؟ اور پھر تم میری ضد میں آکر کیوں حق سے منہ موڑو؟ میں ایسا تو نہیں کرتا کہ تمہیں ایک بات سے روکوں اور پھر خود وہی کرنے لگوں میں وہی بات کہتا ہوں جس پر خود عامل ہوں۔ اور تم میری تبلیغ سے بگڑتے کیوں ہوں؟ میں کچھ تم پر نگہبان بن کر تو نہیں کھڑا ہوگیا ہوں کہ مجبور کروں، میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں، جہاں تک میرے بس میں ہے، اور میرے کاموں کو بننا ہے تو اللہ ہی کی مدد سے بننا ہے میرا بھروسہ صرف اسی پر ہے۔ بحر قلزم کی جو شاخ عرب اور جزیرہ نمائے سینا کے درمیان گزری ہے اسی کے کنارے مدین کا قبیلہ آباد تھا، چونکہ یہ جگہ شام، افریقہ اور عرب کے تجارتی قافلوں کا نقطہ اتصال تھی، اس لیے اشیائے تجارت کے مبادلہ کی بڑی منڈی بن گئی تھی اور لوگ خوشحال ہوگئے تھے، اسی لیے حضرت شعیب نے کہا : (انی ارکم بخیر) میں تمہین خوشحال پوتا ہوں۔ لیکن جب لوگوں کے اخلاق فاسد ہوگئے تو کاروبار میں خیانت کرنے گلے اور ماپ تول کے انصاف سے ناآشنا ہوگئے، یہی وجہ ہے کہ حضرت شعیب نے خصوصیت کے ساتھ اس معصیت سے روکا۔ جو مکالمہ گزر چکا ہے اس پر اچھی طرح غور کرو، لوگوں نے کہا تم نماز پڑھتے ہو لیکن تمہارے نماز پڑھنے کا نتیجہ یہ کیوں نکلے کہ ہم لوگوں کو بھی اپنی راہ چلنے کی دعوت دو؟ یعنی بنائے نزاع خود تمہارا عمل نہیں ہے یہ ہے کہ دوسروں کو کیوں دعوت دیتے ہو؟ حضرت شعیب نے کہا یہی تو میرا اصلی کام ہے اسے کیسے چھوڑ دوں؟ سچائی کی روشنی میرے سامنے آگئی ہے اور جب آگئی ہے تو اس کے اعلان سے باز نہیں رہ سکتا، البتہ ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے مجھے حق نہیں کہ کسی پر جبر کروں، اس سے معلوم ہوا اتباع حق کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ آدمی کود متبع ہوجائے بلکہ ضروری ہے کہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے۔ اتباع حق کی راہ میں ذاتی خصوصیت اور شخصی حسد سے بڑھ کر کوئی روک نہیں، مکالمہ سے یہ بات ٹپکتی ہے کہ قبیلہ کے سرداروں کو حضرت شعیب سے ذاتی خصومت ہوگئی تھی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کہا، ایسا نہ کرو کہ میری ضد میں آکر پیام حق کے مخالف ہوجاؤ اور خدا کے مواخذہ میں گرفتار ہو۔ انسان انسانوں کا پاس کرتا ہے لیکن سچائی کا پاس نہیں کرتا، وہ انسانوں کے خیال سے ایک بات چھوڑ دے گا لیکن خدا کے خیال سے نہیں چھوڑے گا، چنانچہ منکروں نے کہا ہم تجھے سنگسار کردیتے لیکن تیرے کنبہ کے خیال سے ایسا نہیں کرتے۔ حضرت شعیب نے کہا افسوس تم پر، تمہیں میرے کنبہ کا تو پاس ہوا لیکن خدا کا نہ ہوا۔ خدا کی بات تو تمہارے خیال میں کوئی بات ہی نہیں ہے۔