وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ
اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا (١) اس نے کہا کہ اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں (٢) اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا (٣) اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے (٤) پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے۔
قوم ثمود میں حضرت صالح کا ظہور ہوا۔ انہوں نے کہا اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ دیکھو کون ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا، یعنی ایسی چیز سے پیدا کیا جو زمینن کی مٹی کا خمیر تھی (جیسا کہ دوسری جگہ صراحت کی ہے) اور پھر تم سے اس کی آبادی و رونق کردی؟ کیا پروردگار عالم کے سوا کوئی ہوسکتا ہے؟ پھر کیا وہی اس کا مستحق نہیں کہ اس کی بندگی کی جائے؟ سرکشی سے باز آجاؤ اور اس کی طرف رجوع ہو۔ قوم نے کہا ہمیں تو تمہاری ذات سے بڑی بڑی امیدیں تھیں کہ ہماری سرداری اور پیشوائی کرو گے یہ تمہیں کیا ہوگیا کہ ہمارے بزرگوں کے طریقہ کو برا کہتے ہو اور اس سے ہمیں ہٹانا چاہتے ہو؟ ہمیشہ یہ بات دیکھی گئی ہے اور اب بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ جب کبھی ایک غیر معمولی قابلیت کا آدی قوم میں پیدا ہوتا ہے تو لوگ اس کی قابلیت سراہتے ہیں اور اس سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کرتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشوا ہوگا، باپ دادا کا نام روشن کرے گا، لیکن جب وہ کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جو ان طور طریقہ کے خلاف ہوتی ہے تو گردن موڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں۔ یہ تو نکما نکلا۔ ہماری ساری امیدیں خاک میں ملا دیں۔ گویا بزرگی و پیشوائی کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ جو بات حق معلوم ہو اس کی لوگوں کو دعوت دی جائے۔ بلکہ یہ ہے کہ لوگ جسے حق سمجھتے ہوں اس کی پیروی کی جائے اور اسی طرف لوگوں کو بھی دعوت دی جائے۔ قرآن نے یہاں قوم ثمود کا جو جواب نقل کیا ہے اس کا مطلب یہی ہے۔