أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو (١)۔
(١) یہ بات سورۃ بقرہ اور سورۃ یونس میں بھی گزر چکی ہے اور آئندہ سورتوں میں بھی آئے گی، اس کی تشریح سورۃ اسرا آیت (٨٨) کے نوٹ میں دیکھنی چاہیے۔ کفار پیغمبر اسلام کے اعلانا حق کی ہنسی اڑاتے تھے، اور جب قرآن سنایا جاتا تھا تو کہتے تھے، یہ تو تم نے اپنے جیسے گھڑ لیا ہے،۔ آیت (١٣) میں فرمایا اگر یہ گھڑٰ ہوئی بات ہے تو تم بھی ایسی ہی بات گھڑ کر بنا لاؤ اور اپنے بنائے ہوئے معبودوں سے دعائیں کرو کہ اس کام میں تمہاری مدد کریں۔ اس کے بعد یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اگر انکار و وسرکشی پر بھی انہیں دنیوی فوائد مل رہے ہیں تو صرف اتنی ہی بات دیکھ کر یہ مغرور نہ ہوجائیں اور نہ مومنوں کو چہایے کہ اس پر متعجب ہوں، اللہ نے دنیا کے لیے ایسا ہی قانون ٹھہرا دیا ہے کہ انسان کا ہر عمل ایک نتیجہ رکھتا ہے اور جیسا کچھ عمل ہوا ہے اسیکے مطابق نتیجہ بھی نکلتا ہے۔ اگر ایک انسان آخرت کی طرف سے غافل ہے اور صرف دنیوی زندگی ہی کا خواہشمند ہے جب بھی ایسا نہ ہوگا کہ اس کی سعی و طلب بے اثر ہوجائے، جیسی کچھ کوشش کرے گا، اس کے مطابق نتیجہ حاصل کرلے گا۔ اگر اچھی طرح ہل جائے گا اور تخم ریزی کرے گا تو اچھی فصل پیدا ہوجائے گی۔ ادھورا کام کرے گا تو ادھورا نتیجہ نکلے گا۔ البتہ ایسے آدمی کے سارے کام اکارت گئے۔ آخرت کے لیے کچھ سود مند نہ ہوئے۔