وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ
اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے، پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہوجاؤ گے (١)۔
لقائے الہی : (ا) قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے آخرت کے معاملہ کو ہر جگہ لقائے الہی سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی اللہ کے دیدار سے، چنانچہ تم جابجا اس طرحح کی تعبیرات پاؤ گے، جو لوگ لقائے الہی کی توقع رکھتے ہیں، یعنی آخرت کی توقع رکھتے ہیں۔ یا جن لوگوں نے لقاء الہی سے انکار کیا، یعنی آخرت سے انکار کیا، وہ کہتا ہے مومن وہ ہے جو لقائے الہی کی طلب رکھتا ہے، کافر وہ ہے جو دنیوی زندگی ہی پر قانع ہوگیا اور لقائے الہی کی اس میں کوئی طلب نہیں۔ چنانچہ اس سورت کی آیت (٧) میں فرمایا جو لوگ ہماری ملاقات کے متوقع نہیں اور صرف دنیوی زندگی ہی پر راضی ہوگئے ہیں اور اس کے خلاف ان کے دل میں کوئی خلش نہیں اٹھتی اور وہ کہ ہماری نشانیوں سے یک قلم غافل ہوگئے ہیں۔ پھر جابجا مومنوں کی نسبت فرمایا ہے کہ ان کی نگاہیں جمال الہی کا نظارہ کریں گے : (وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرہ) اور کافروں کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ اس نعمت سے محروم رہیں گے : (کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون) پس ان تمام تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے آخرت کی زندگی اور اس کے نعائم کی جو حقیقت قرار دی ہے وہ کوئی ایسی بات ہے جس کا ماحصل لقائے الہی ہے اور عذاب آخرت کا معاملہ کوئی ایسا معاملہ ہے جسے وہ محبوب رہنے سے تعبیر کرتا ہے۔ (٢) بعض تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کی نعمتوں میں ایک نعمت تو وہ ہے جسے وہ جنت کی زندگی سے تعبیر کرتا ہے اور ایک اس کے علاوہ بھی ہے۔ اس دوسری نعمت کو اس نے جابجا رضوان سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے یہ جنتی زندگی کی نعمت سے بھی بڑی نعمت ہوگی : (وعد اللہ المومنین والمومنات جنات تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا ومساکن طیبۃ فی جنات عدن ورضوان من اللہ اکبر، ذلک ھو الفوز العظیم) رضوان سے مقصود اللہ کی خوشنودی کا اعلی مرتبہ ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے وہ کوئی ایسی نعمت ہے جس کے لیے بجز اس کے اور کوئی تعبیر نہیں ہوسکتی تھی کہ اللہ کی کامل ترین رضا مندی کی بخشش و نوال کہی جائے۔ تناسخ : (٣) ہندوستان میں آخرت کی زندگی اور جزا کے لیے آواگون (تناسخ) کا عقیدہ پیدا ہوا۔ قدیم ہند و مذہب اور پیروان بدھ اور جینی تینوں اس میں متفق ہیں۔ قدیم مصریوں کے عقائد میں بھی اس کا سراغ ملتا ہے اور بعض حکمائے یونان بھی اسی طرف گئے ہیں، چونکہ قرآن نے آخرت کے معاملہ کے لیے رجوع کی تعبیر اختیار کی ہے، یعنی وہ ہر جگہ کہتا ہے والیہ ترجعون تم اسی طرف لوٹائے جاؤ گے اس لیے حال میں ایک تھیا سوفسٹ مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کا عقیدہ آخرت بھی تناسخ کے مبدء پر مبنی ہے۔ وہ کہتے ہیں قرآن نے لوٹنے کی تعبیر اختیار کر کے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ زدنگی بار بار ظہور میں آتی اور بار بار اسل مرکز کی طرف لوٹتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا استنباط کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ قرآن نے آخرت کی زندگی کو لوٹنے سے تعببیر کیا ہے اور وہ اس معاملہ کو یوں قرار دیتا ہے گویا سہتی انسان کہیں سے آئی ہے اور پھر اسی کی طرف لوٹے گی لیکن صرف اتنی ہی بات سے تناسخ ثابت نہیں ہوجاتا۔ فلسفیانہ تناسخ کی بنیاد روح کے رجوع پر نہیں بلکہ زندگی کے بار بار اعادہ گردش پر ہے اور مذہبی تناسخ کی بنیاد یہ ہے کہ جزائے عمل کا معاملہ اسی اعادئے و گردش سے مرتب ہوتا ہے اور وہ ظاہر ہے کہ قرآن میں ان دونوں عقیدوں کے لیے کوئی تصریح نہیں ملتی۔ ہدایت حواس و عقل اور اس سے استدلال : (د) آیت (٣٥) میں فرمایا : (قل ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق، قل اللہ یھدی للحق، افمن یھدی الی الحق احق ان یتبع امن لا یھدی الا ان یھدی فما لکم کیف تحکمون) یعنی جن لوگوں کو تم نے خدا کا شریک ٹھہرا لیا ہے ان میں کوئی ہے جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہو؟ یہ تو اللہ ہی کی ذات ہے جو حق کی راہ چلاتی ہے۔ اچھا تو پھر بتلاؤ جو ہستی حق کی طرف رہنمائی کرتی ہے وہ اس کی حقدار ہے کہ اس کے پیچھے چلیں یا اس کے پیچھے چلنا چاہیے جو خود اس کی محتاج ہے کہ کوئی راہ سجھائے؟ یہ مقام قرآن کے مہمات دلائل میں سے ہے اور ضروری ہے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے چونکہ اس آیت میں ہدایت اور حق کے الفاظ آئے ہیں اس لیے مفسرین نے خیال کیا ہدایت سے مقصود ہدایت وحی ہے اور حق سے مقصود دین حق اور فارسی و اردو کے تمام متجرموں نے بھی انہی کی پیروی کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کے استدلال کی ساری حقیقت مفقود ہوگئی اور آیت کا مطلب بھی کچھ سے کچھ ہوگیا۔ اس طرح کے تمام مقامات دیکھ کر سخت حیرانی ہوتی ہے کہ متاخرین کا معیار نظر و مطالعہ کیوں اس درجہ پست ہوگیا تھا کہ قرآن کے صاف و صریح مطالب سے بھی آشنا نہ ہوسکے؟ علاوہ بریں یہ ظاہر ہے کہ یہاں خطاب مشرکوں سے ہے جو سرے سے وحی و دین کے منکر تھے اور مقام استدلال کا ہے، پھر اگر ہدایت سے مقصود ہدایت وحی و دین ہو تو اس میں ان کے لیے دلیل کی بات کیا ہوئی؟ جب وہ وحی و دین کی ہدایت مانتے ہی نہ تھے تو پھر اسی ہدایت سے ان پر دلیل کیونکر لائی جاسکتی ہے؟ کم از کم اتنی ہی بات پر ان بزرگوں نے غور کرلیا ہوتا۔ آیت کا اسلوب کہہ رہا ہے کہ یہاں پہلے ایک بات بطور ایک مسلمہ عقیدہ کے بیان کی گئی ہے جس سے مخاطب انکار نہیں کرتا یا نہیں کرسکتا۔ پھر جب اس کا مسلم ہونا واضھ وہ گیا تو اسی کو بنا استدلال ٹھہرایا گیا ،۔ یعنی پہلے کہا گیا : (ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق) تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو حق کی رہنمائی کرتا ہو؟ پھر کہا گیا : (قل اللہ یھدی للحق) یعنی تم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ وہ ہستی جو رہنمائے حق ہے وہ اللہ ہی کی ہستی ہے، پھر جب یہ مسلمہ واضح ہوگیا تو اس سے استدلال کیا گیا کہ (افمن یھدی الی الحق احق ان یتبع) پس ضروری ہے کہ یہاں ہدایت سے مقصود کوئی ایسی بات ہو جس سے مخاطبوں کو انکار کی مجال نہ تھی۔ اب اگر ہدایت کا مطلب ہدایت وحی و دین قرار دیا جاتا ہے تو سار مطلب خبط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ معلوم ہے کہ مخاطبوں کے لیے یہ مسلم بات نہیں ہوسکتی، وہ سرے سے وحی ہی کے منکر تھے۔ اصل یہ ہے کہ ان بزرگوں نے یہ معلوم کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ قرآن میں ہدایت کا لفظ کن کن معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس کے مختلف مراتب و اشکال کیا کیا ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں ہدایت کا لفظ دیکھتے ہیں اسے ہدایت دین ہی پر محمول کرلیتے ہیں۔ اگرچہ مطلب ٹھیک نہ بیٹھتا ہو۔ بہرحال یہاں ہدایت سے مقصود ہدایت وحی نہیں ہے بلکہ وجدان و حواس اور عقل کی ہدایت ہے اور حق سے مقصود دین حق نہیں ہے بلکہ لغوی حق ہے۔ یعنی سچا راستہ، درست راستہ، قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ جس طرح اللہ کی ربوبیت نے مخلوقات کو ان کے مناسب حال وجود عطا فرمایا ہے اسی طرح زندگی و معیشت کی راہ میں ان کی ہدایت کا قدرتی سامان بھی کردیا ہے۔ یہ ہدایت کیونکر ظہور میں آئی؟ اس طرح کہ ان میں وجدان و حواس کی قوتیں رکھ دی گئیں اور انسانوں کو وجدان و حواس کے ساتھ جوہر عقل سے بھی ممتاز کیا۔ چنانچہ اس مقام کی پوری تشریح تفسیر سورۃ فاتحہ کے مبحث ہدایت میں گزر چکی ہے اور (ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی) اور (الذی خلقنی فھو یھدین) اور (الذی خلق فسوی والذی قدر فھدی) وغیرہا آیات میں ہدایت سے مقصود یہی ہدایت ہے۔ پس یہاں فرمایا تم نے جن ہستیوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا ہے ان میں کوئی ہے جو زندگی و معیشت کے ٹھیک راستہ پر انسان کو چلاتا ہو؟ یعنی جو دیکھنے، سننے، بوجھنے کی قوتیں بخشتا ہو؟ پھر فرمایا تم جانتے ہو کہ یہ کوئی نہیں کرسکتا۔ یہ صرف اللہ ہی کی کار فرمائی ہے، کیونکہ مشرکوں کو اللہ ہستی اور اس کے خالق کل ہونے سے انکار نہیں تھا، البتہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں ان ہستیوں کی بھی پرستش کرنی چاہیے جو اللہ کے حضور مقرب ہیں اور جنہیں دنیا میں حکم و تصرف کی قوتیں حاصل ہوگئی ہیں۔ پھر جب یہ بات واضح ہوگئی تو فرمایا : جب تمہیں اس بات سے انکار نہیں تو غور کرو انسان کو پیروی اس کی کرنی چاہیے جو ہدایت کرنے والا ہے یا اس کی جو خود کسی دوسرے کی ہدایت کا محتاج ہے؟ تم کیسے فیصلہ کر رہے ہو؟ عدم احاطہ علم اور تکذیب حقائق : (ہ) آیت (٣٩) میں منکرین قرآن کی نسبت فرمایا : (بل کذبوا بما لم یحیطوا بعلمہ ولا یاتھم تاویلہ) آیت کا مطلب ترجمہ میں واضح ہوچکا ہے۔ یہاں دو باتوں کی مزید تشریح کردی جاتی ہے۔ اولاد قرآن نے بیک وقت دونوں باتوں کی مذمت کی ہے، اس کی بھی کہ بغیر علم و بصیرت کے کوئی بات مان لی جائے اور اس کی بھی کہ محض عدم ادراک کی بنا پر کوئ بات جھٹلا دی جائے۔ چنانچہ اسی سورت کی آیت (٣٦) میں گزر چکا ہے کہ منکرین حق علم و یقین کی روشنی سے محروم ہیں۔ ان کا سرمایہ اعتقاد محض ظن و گمان ہے، اور پھر اس آیت میں فرمایا کہ جس بات کا وہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے اس کے جٹھلانے پر آمادہ ہوگئے۔ اگرچہ بظاہر یہ دو باتیں الگ الگ معلوم ہوتی ہیں لیکن فی الحقیقت ایک ہی بات ہے اور دونوں کی بنیاد اسی ایک اصل عظیم پر ہے کہ نہ تو ظن و گمان کی بنا پر تصدیق کرنی چاہیے۔ نہ ظن و گمان کی بنا پر تکذیب کرنی چاہیے۔ جو کچھ کرنا چاہیے علم و بصیرت کی بنا پر کرنا چاہیے۔ منکرین قرآن نے کوسی بات جھٹلائی تھی؟ یہ کہ انہی میں سے ایک آدمی پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہو، یہ بات انہیں عجیب معلوم ہوئی، اس لیے فورا تکذیب پر آمادہ ہوگئے، قرآن کہتا ہے تمہارے ماننے اور تمہارے جھٹلانے دونوں کا مدار ظن و گمان پر ہے، تم جو باتیں مان رہے ہو ان کے لیے بھی تمہارے پاس کوئی علم نہیں اور جس بات کے جھٹلانے میں اس قدر جلدی کی اس کے لیے بھی تمہارے پاس کوئی یقین نہیں، حالانکہ سچائی کی راہ یہ ہے کہ جو کچھ کرو علم بصیرت کے ساتھ کرو۔ محض اٹکل پر نہ چلو، اگر ایک شخص علم کے ساتھ ایک بات پیش کر رہا ہے اور جتنی باتیں کسی بات کی درستی اور معقولیت کی ہوسکتی ہیں سب اس کے ساتھ ہیں اور تمہارے پاس اس کے خلاف ظن و گمان کے سا کچھ نہیں تو تمہارے لیے کیوں کر جائز ہوسکتا ہے کہ جھٹ جھٹلانے پر آمادہ ہوجاؤ؟ اس سے پہلے آیت (٣٦) میں یہی بات کہی جا چکی ہے کہ (ان الظن لا یغنی من الحق شیئا) تم ظن کی بنا پر یقین کی دعوت جھٹلاتے ہو، حالانکہ ظن کا بھروسہ انسان کو یقین سے مستغنی نہیں کرسکتا؟ اگر تم غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی ساری فکری گمراہیوں کا اصلی سرچشمہ یہی بات ہے یا تو وہ عقل سے بینش سے اس قدر کو راہ ہوجاتا ہے کہ ہر بات بے سمجھے بوجھے مان لیتا ہے اور ہر راہ میں آنکھیں بند کیے چلتا رہتا ہے، یا پھر سمجھ بوجھ کا اس طرح غلط استعمال کرتا ہے کہ جہاں کوئی حقیقت اس کی شخصی سمجھ سے بالا تر ہوئی، اس نے فورا جھٹلا دی۔ گویا حقیقت کے اثبات و وجود کا سارا دارومدار صرف اسی بات پر ہے کہ ایک خاص فرد کی سمجھ ادارک کرسکتی ہے یا نہیں۔ دونوں حالتیں علم و بصیرت کے خلاف ہیں اور دونوں کا نتیجہ عقل و بینش سے محرومی اور عقلی ترقی کا فقدان ہے۔ جس عقل و بصیرت کا تقاضا یہ ہوا کہ حقیقت اور وہم میں امتیاز کریں وہی متقاضی ہوئی کہ کوئی بات محض اس لیے نہ جھٹلا دیں کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ عقل کا پہلا تقاضا ہمیں وہم پرستی و جہل سے روکتا ہے۔ دوسرا اشک و الحاد سے، قرآن کہتا ہے دونوں حلاتیں یکساں طور پر جہل و کوری کی حالتیں ہیں اور اہل علم و عرفان وہ ہیں جو نہ تو جہل و وہم کی راہ چلتے ہیں۔ نہ شک و الحاد کی۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ دو صورتیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک نہیں، ایک یہ کہ کوئی بات عقل کے خلاف ہو، ایک یہ کہ تمہاری عقل سے بالا تر ہو، بہت سی باتیں ایسی ہوسکتی ہیں جن کا تمہاری سمجھ احاطہ نہیں کرسکتی۔ لیکن تم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ سرے سے خلاف عقل ہیں، اول تو تمام افراد کی عقل قوت یکسساں نہیں، ایک آدمی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتا، دوسرا باریک سے باریک نکتے حل کرلیتا ہے۔ ثانیا عقل انسانی برابر نشوونما کی حالت میں ہے، ایک عہد کی عقل جن باتوں کا ادراک نہیں کرسکتی، دوسرے عہد کے لیے وہ عقلی مسلمات بن جاتی ہیں۔ ثالثا انسانی عقل کا ادراک ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور عقل ہی کا فیصلہ ہے کہ حقیقت اسی حد پر ختم نہیں ہوجاتی۔ اچھا اب مذہب کے میدان سے باہر قدم نکالو اور غور کرو قرآن نے ان چند لفظوں کے اندر جو بات کہہ دی ہے وہ انسانی علم و عقل کی تمام ترقیوں کے لیے کس طرح اصل و اساس ثابت ہورہی ہے؟ کون سی بات ہے جس نے علمی ترقی کے غیر محدود اور لانہایت امکانات کا دروازہ نوع انسانی کے سامنے کھول دیا اور علم و ادراک کی سینکڑوں ناممکن باتوں کو نہ صرف ممکن بلکہ واقعہ بنا دیا؟ کیا یہی بات نہیں ہے کہ کسی باتت کے احاطہ نہ کرسکنے سے اس کا انکار لازم نہیں آجاتا؟ اگر اصحاب علم و انکشافات نے اس بات سے انکار کردیا ہوتا تو کیا ممکن تھا کہ عقلی ترقیات کے قدم یہاں تک پہنچ سکتے اور آئندہ کے لیے اس قدر ممکنات سامنے آجاتے ؟ بلاشبہ علم و انکشاف کے ہر عہد میں ایسی جلد باز طبیعتیں بھی ہوئیں جنہوں نے محض عدم ادراک کی بنا پر انکار کردیا لیکن علم نے کچھ کچھ پرا نہ کی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کا سفر جاری رہا اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کب تک اور کہاں تک جاری رہے گا۔ ایک اور بات بھی یہاں سمجھ لینی چاہیے، جہاں تک عقل اور ماورائے عقل کی نزاع کا تعلق ہے قرآن کے بعد تین دور بحث و نظر کے گزر چکے ہیں، ایک دور حکما و متکلمین اسلام کا جنہوں نے عقلی طریقہ پر مذہبی عقائد کا اثبات کرنا چاہا۔ دوسرا یورپ کے نشاۃ ثانیہ کا جب اسی طرح مسیحی علم کلام مرتب کیا گیا۔ تیسرا علوم عصریہ کا جس نے بحث و نظر کے تمام گوشوں میں ایک نئی روح پیدا کردی۔ تاہم یہ واقعہ ہے کہ قرآن نے یہاں سیدھے سادھے لفظوں میں جو بات کہہ دی ہے اس پر کوئی اضافہ نہ ہوسکا۔ بلاشبہ بحث و نظر کی کاوشیں دور دور تک گئیں لیکن ہمیشہ ناکامیاب ہوئیں اور ہمیشہ اصحاب عرفان وتحقیق کو اقرار کرنا پڑا کہ اس سے بہتر اور فیصلہ کن بات اور کوئی نہیں کہی جاسکتی۔ یہ مقام مہمات معارف میں سے ہے اور تفصیل اس کی مقدمہ میں ملے گی۔ (٢) حقیقت تاویل مستعملہ قرآن : عربی میں تاویل کے معنی کسی بات کے نتیجہ اور مآل کے لیں اور چونکہ الفاظ کے معانی بھی ان کی دلالت کا مآل و مصداق ہوتے ہیں اس لیے مطالب و معانی پر بھی اس کا اطلاق ہونے لگا۔ لیکن قرآن نے یہ لفظ ہر جگہ لغونی معنی میں استعمال کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ آل عمران کی آیت (٧) اور اعراف کی (٥٣) میں بھی یئہ لفظ گزر چکا ہے اور اس آیت میں بھی استعمال ہوا ہے۔ لیکن بعد کو جب تفسیر و کلام کے مختلف مذاہب پیدا ہوئے تو تاویل کا لفظ ایک خاص مصطلحہ معنی میں بولا جانے لگا۔ یعنی کسی لفظ کا ایسا ملطب ٹھہرانا جو اس کے ظاہری مدلول سے ہٹا ہوا ہو۔ مثلا قرآن میں ید اللہ کا لفظ آیا ہے۔ یعنی ٰخدا کا ہاتھ، اور یہ تنزییہ کے خلاف ہے کہ خدا کا ہاتھ ہو اس لیے ہاتھ کی جگہ اس کا کوئی دوسرا مطلب لینا، پھر اس کے مختلف مراتب و اقسام ٹھہرائے گئے اور مذہب تاویل و تفویض کی نزاعیں برپا ہوئیں۔ چونکہ متاخرین کے دماغوں میں یہ مصطلحات بسی ہوئی ہیں اس لیے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے بھی وہ ان کے اثر سے باہر نہیں جاسکتے۔ چنانچہ قرآن کے لغوی تاویل کو بھی انہوں نے مصطلحات کلامیہ کا مصطلحہ تاویل سمجھ لیا اور اس پر بحث و استدلال کی عمارتیں اٹھانے لگے۔ تفسیر کبیر میں اس آیت کی تفسیر پڑھو اور پھر غور کرو کہ تفسیر قرآن کی راہ میں کیسے کیسے الجھاؤ ڈال دیے گئے ہیں اور اصل حقیقت کس طرح مستور ہوگئی ہے۔ تفسیر لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون : (و) قرآن نے ایمان اور اہل ایمان کی نسبت جو کچھ کہا ہے اس میں کوئی بات بھی اس قدر نمایاں نہیں ہے جس قدر یہ کہ (لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون) خوف اور غم دونوں سے وہ محفوظ ہوجائیں گے۔ چنانچہ اس سورت کی آیت (٦٢) میں بھی یہی بات فرمائی ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ قرآن نے اس وصف پر کیوں اس قدر زور دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی سعادت کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی شقاوت کی ساری سرگزشت انہی دو لفظوں میں سمٹی ہوئی ہے، خوف اور دکھ، جونہی ان دو باتوں سے اسے رہائی مل گئی اسکی ساری سعادتیں اس کے قبضے میں آگئیں۔ زندگی کے جتنے بھی کانٹے ہوسکتے ہیں سب کو ایک ایک کر کے چنو اور دیکھو، خواہ جسم میں چبھتے ہوں، خواہ دماغ میں، خواہ موجودہ زندگی کی عافیت میں خلل ڈالتے ہوں، خواہ آخرت کی تم دیکھو گے کہ ان دو باتوں سے باہر نہیں ہیں، یا خوف کا کانٹا ہے یا غم کا۔ قرآن کہا ہے ایمان کی راہ سعادت کی راہ ہے، جس کے قدم اس راہ میں جم گئے اس کے لیے دونوں کانٹے بے اثر ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا اندیشہ ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔ قرآن نے یہی حقیقت دوسرے پیرایوں میں بھی بیان کی ہے۔ مثلا آخری پارہ میں سورۃ عصر اسی حقیقت کا اعلان ہے۔