سورة یونس - آیت 98

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

چنا نچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے (١) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لئے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٩٨) میں حضرت یونس کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کا عبرانی نام یوناہ تھا، جو عربی میں یونس ہوگیا۔ یہ بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ہیں اور عہد عتیق کے نوشتوں میں ایک نوشتہ ان کے نام سے بھی ہے، اس نوشتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے باشندگان نینوا کو خبر دی تھی کہ چالیس دن کے بعد شہر تباہ ہوجائے گا کیونکہ تمہارا طلم و فساد حد سے گزر گیا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے سرکشی نہیں کی بلکہ پادشاہ سے لے کر گڈریے تک سب توبہ و استغفار میں لگ گئے، نتیجہ یہ نکلا کہ چالیس دن کی مدت گزر گئی مگر موعودہ تباہی ظہور میں نہ آئی۔ فرمایا موعودہ عذاب ان پر اس لیے ٹل گیا کہ بات مالی اور سرکشی نہیں کی، اس کے بعد فرمایا : ایک خاص مدت تک کے لیے انہیں مہلت دے دی گئی۔ چنانچہ حضرت یوناہ کے بعد تقریبا ٦٩٠ قبل مسیح میں ان کا ظلم و فساد پھر حد سے گزر گیا اور ایک اور اسرائیل نبی ناحوم نامی نے انہیں پیش آنے والی تباہی کی خبر دی، اس انذار کے ستر برس بعد اہل بابل نے ان پر حملہ کیا۔ ساتھ ہی دجلہ میں اس زور کا سیلاب آیا کہ نینوا کی مشہور عالم چار دیواری جابجا سے گرگئی اور حملہ آوروں کے لیے کوئی روک باقی نہ رہی۔ چنانچہ اشوری تمدن کا یہ مرکز اس طرحح نابود ہوا کہ ٢٠٠ قبل مسیح اس کا جائے وقوع بھی لوگوں کو معلوم نہ تھا جیسا کہ اس عہد کے ایک یونانی مورخ نے تصریح کی ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اہل مکہ انکار و سرکشی کر رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تمہیں غور کرنا چاہیے کہ کتنے ہی رسول عرب کے قرب و جوار میں آئے لیکن قوم یونس کے سوا کوئی قوم نہ نکلی جس نے دای حق کی بات فورا مان لی ہو اور عذاب اس پر سے ٹل گیا ہو۔ پھر اگر اکثر حالتوں میں ایسا ہی ہوا ہے تو موجود حالت پر تعجب و مایوسی کیوں ہو؟ قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضھ کی ہے کہ انسانی طبعیت و استعداد کا اختلاف فطری ہے اور خدا کی مشیت یہی ہوئی کہ یہ ختلاف ظہور میں آئے، اگر وہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی طرح کی طبیعت ایک ہی طرح کی استتعداد ایک ہی طررح کی فکری و عملی حالت پر مجبور کردیتا مگر اس نے ایسا نہیں چاہا۔ اس کی حکمت کا یہی فیصلہ ہوا کہ انسان میں ہر طرح کی حالت پیدا کرنے کی استعداد ہو اور ہر طرح کی راہ اس کے آگے کھول دی جائے۔ وہ اگر اونچا ہونا چاہیے تو زیادہ سے زیادہ اونچا ہوسکے۔ پست ہونا چاہیے تو زیادہ سے زیادہ پستی میں گر سکے، اسی تنوع استعداد کا نتیجہ ہے کہ فکر و عمل کے ہر گوشے میں مختلف حالتیں پیدا ہوگئیں۔ ایک فرد و جماعت کا ذوق ایک طرح کا ہوا، دوسرے کا دوسری طرح کا۔ ایک کی سمجھ ایک طرف گئی، دوسرے کی دوسری طرف، ایک نے ایک راہ پسند کی کہ حق ہے، دوسرے نے اس سے انکار کیا کہ حق نہیں، اور پھر اسی اختلاف فکر و عمل نے ہدایت و سعادت اور ضلالت و شقاوت کی وہ کشمکش پیدا کردی جسے قراان آزمائش حیات سے تعبیر کرتا ہے کہ (لیبلوکم ایکم احسن عملا) وہ تمہیں کشمکش حیات کی آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ کھل جائے تم میں کون ہے جس کے اعمال سب سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں، کیونکہ اس کشمکش میں کامیاب وہی ہوگا جو اپنے عمل میں احسن و انفع ہوگا۔