سورة البقرة - آیت 135

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔ تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں، اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے۔ (١)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بہرحال ہدایت کی راہ ان گروہ بندیوں کی راہ نہیں ہوسکتی اور نہ وہ کسی ایک قوم اور گروہ ہی کے حصے میں آئی ہے۔ ہدایت کی راہ تو وہی ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی راہ تھی اور وہ خدا کا عالمگیر قانون نجات ہے۔ پس سچائی کی راہ یہ ہوئی کہ دوسرے کو جھٹلانے کی جگہ سب کی تصدیق کرو۔ دنیا میں جس قدر بھی رہنمایان مذاہب آئے ہیں خواہ وہ کسی عہد اور کسی ملک و قوم سے تعلق رکھتے ہوں سب ایک ہی سچائی کے پیغامبر تھے، اور اس لیے سب کی یکساں طور پر تصدیق کرنی چاہیے۔ داعیان مذاہب میں سے کسی ایک کا انکار بھی سب کا انکار ہے۔ جو کوئی تفریق بین الرسل کرتا ہے یعنی کسی کو مانتا ہے۔، کسی کو نہیں مانتا۔ وہ فی الحقیقت خدا کے پورے سلسلہ ہدایت کا منکر ہے۔ قرآن کہتا ہے میری راہ عالمگیر تصدیق کی راہ ہے۔ اگر تم یہودی ہو اور تورات پر ایمان رکھتے ہو تو میں اس کا مصدق ہوں اور اسی لیے آیا ہوں تاکہ دین حقیقی تازہ کروں۔ اگر تم مسیحی ہو تو میں انجیل کا منکر کب ہوں؟ میں تو اسی لیے آیا ہوں کہ تم انجیل کے سچے عامل بن جاؤ۔ اگر تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نام لیوا ہو، تو میر دعوت سرتاسر ملت ابراہیمی ہی کی دعوت ہے۔ اگر تم کسی دوسرے رسول یا نئے مذہب کے پیرو ہو تو میں تمہیں اس کا منکر بنانا نہیں چاہتا۔ اس کی تصدیق میں اور زیادہ پختہ کردینا چاہتا ہوں۔