تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کہا وہ ان کے لئے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے لئے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاؤ گے (١)
قانون الٰہی یہ ہے کہ ہر فرد اور جماعت کو وہی پیش آتا ہے جو اس نے اپنے عمل سے کمایا ہے۔ نہ تو ایک کی نیکی دوسرے کو بچا سکتی ہے۔ نہ ایک کی بدعملی کے لیے دوسرا جواب دہ ہوسکتا ہے۔ انسان کے لیے قدامت پرستی کا پھندا بڑا ہی سخت پھندا ہے اس کے بیچ سے وہ نکل نہیں سکتا۔ وہ ہمیشہ ماضی کے افسانوں میں گم رہے گا اور ہر پرانے طور طریقے کو تقدیس کی نظر سے دیکھے گا۔ ہندو ہزاروں برس سے مہا بھارت اور پرانوں کے افسانوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے دو فرقے آج تک اس نزاع سے فارغ نہیں ہوئے کہ تیرہ سو برس پہلے سقیفہ میں خلافت کا جو انتخاب ہوا تھا، وہ صحیح تھا یا غلط؟ لیکن قران کہتا ہے تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ، یہ ایک گروہ تھا جو گزر چکا۔ اب اس کے پیچھے پڑے رہنے سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ تم اپنی خبر لو۔ ان کے اعمال ان کے لیے تھے۔ تمہارے تمہارے لیے ہیں۔