وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا ۚ صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُم بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں کہ تم کو کوئی دیکھتا تو نہیں پھر چل دیتے ہیں (١) اللہ تعالیٰ نے ان کا دل پھیر دیا اس وجہ سے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں (٢)۔
قرآن نے جو صورت اختیار کی ہے وہ پہلی ہے اور سوشلزم جس بات کے لیے ساعی ہے وہ دوسری ہے۔ دونوں کا مقصد یہ ہے کہ انسانی اکثریت کی شقاوت دور کی جائے، دونوں نے علاج بھی ایک ہی تجویز کیا ہے یعنی دولت کا اکتناز روکا جائے لیکن دونوں کا طریق کار ایک نہیں، ایک اختلاف معیشت سے تعرض نہیں کرتا اور اسے قائم رکھ کر راہ نکالتا ہے۔ دوسرا اسے مٹا دینا چاہتا ہے۔ اسلام اور سوشلزم کا یہ اختلاف اگرچہ محض درجہ (ڈگری) کا اختلاف معلوم ہوتا ہے لیکن تہہ میں مبدا کا اختلاف بھی موجود ہے، سوشلزم کا نظریہ یہ ہے کہ مدارج معیشت کا اختلاف کوئی قدرت اختلاف نہیں ہے، لیکن قرآن میں اس طرح کے اشارات جا بجا پائے جاتے ہیں کہ یہ اختلاف قدرتی ہے اور ضروری تھا کہ ظہور میں آئے۔ وہ کہتا ہے اگر یہاں سب کی حالت یکساں ہوجاتی ہے تو تزاحم و تنافس کی حالت پیدا نہ ہوتی اور اگر یہ حالت پیدا نہ ہوتی تو انسان کی قدرت قوتوں کے ابھرنے اور ترقی پانے کے لیے کوئی شے محرک بھی نہ ہوتی اور اجتماعی زندگی کی وہ تمام سرگرمیاں ظہور میں نہ آتیں جن سے یہ تمام کارخانہ چل رہا ہے۔ (وھو الذی جعلکم خلائف الارض ورفع بعضکم فوق بعض درجت لیبلوکم فی ما اتاکم ان ربک سریع العقاب وانہ لغفور رحیم) اور وہی ہے جس ننے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا اور بعض کو بعض پر مرتبے دیے تاکہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے، بلاشبہ تمہارا پروردگار (بدعملیوں کی) فورا سزا دینے والا ہے اور بلاشبہ وہ بڑا ہی بخش دینے والا رحمت والا ہے۔ اس آیت میں تین باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اولا خدا نے انسانی زندگی کا کارخانہ کچھ اس طرح چلایا ہے کہ یہاں ہر گوشہ میں ایک طرح کی جانشینی کا سلسلہ جاری رہتا ہے یعنی ایک فرد اور گروہ جاتا ہے، دوسرا فرد اور گروہ اس کی جگہ لیتا اور اس کے ثمرات و نتائج سعی کا وارث ہوتا ہے۔ ثانیا درجے کے لحاظ سے سب یکساں نہ ہوئے بعض اوپر ہوئے، بعض ان سے نیچے، ثالثا مدارج معیشت کی یہ بلندی و پستی اس لیے ہوئی تاکہ انسان کے عمل و تصرف کے لیے آزمائش کی حالت پیدا ہوجائے اور ہر فرد اور ہر گروہ کو موقع دیا جائے کہ اپنی سعی و کاوش سے جو درجہ حاصل کرسکتا ہے حاصل کرلے۔ آخر میں فرمایا خدا کا قانون جزا سست رفتار نہیں۔ یعنی سعی و طلب کی اسی امتحان گاہ سے جزائے عمل کا معاملہ وابستہ ہے جیسے جس کے اعمال ہوں گے ویسے ہی نتائج اس کے حصہ میں آجائیں گے۔ اسی طرح بابجا قرآن میں پاؤ گے : (واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق) خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں برتری دی ہے۔ (نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیواۃ الدنیا ورفعنا بعضھم فوق بعض درجات) دنیوی زندگی کی معیشت ہم نے لوگوں میں تقسیم کردی اور اس کا کارخانہ ایسا بنا دیا کہ سب ایک ہی درجہ میں نہیں ہیں۔ کوئی کسی درجہ میں ہے کوئی کسی درجہ میں۔ بہرحال قرآن نے اجتماعی مسئلہ کا جو حل تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مدارج معیشت کی مساوات قائم کرنی نہیں چاہتا لیکن حق معیشت کی مساوات ضرور قائم کرتا ہے، یعنی وہ کہتا ہے یہ بات ضروری نہیں کہ سب کو ایک ہی طرح پر سامان معیشت ملے لیکن یہ ضروری ہے کہ ملے سب کو۔ اور سعی و ترقی کی راہ یکساں طور پر سب کے سامنے کھل جائے، اس نے ہر طرح کے نسلی، خاندانی، جغرافیائی، اور طبقاتی امتیاز مٹا دیے، اس نے زندگی کے ہر میدان میں انسانی مساوات کا اعلان کردیا، اس نے وہ تمام رکاوٹیں دور کردیں جو سوسائٹی کے اونچے طبقوں نے کمزور افراد کی خوشحالی و ترقی کی راہ میں پیدا کردی تھیں، اس نے قانون سازی کے ذریعہ دولت کا احتکار اختصاص روک دیا، اس نے زندگی کے ہر گوشہ میں دولت کے اکتناز کی جگہ دولت کی تقسیم پر زور دیا، اس نے اس بات سے قطعا انکار کردیا کہ دولت مندی بجائے خود کوئی حق ہے اس نے بے اعتدلانہ سرمایہ داری کی تمام راہیں روک دیں، اس نے سود کی ہر شکل حرام کردی، اس نے جوئے کو کسی حال میں جائز نہ رکھا۔ پھر ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ کہ انسانی زندگی کے اعمال حق میں انفاق فی سبیل اللہ کو سب سے زیادہ نمایاں جگہ دی، اور ہر کمانے والے فرد کو سامانہ ٹیکس کے ذریعہ مجبور کردیا کہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ دوسروں کے لیے بھی نکالے۔ بس یہ نقشہ ہے جو اسلام نے اجتماعی نظام کا بنایا ہے۔ لیکن سوشلزم صرف اتنے ہی پر قانع نہیں رہنا چاہتا، وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے انفرادی ملکیت کی جگہ قومی ملکیت کا نظام قائم کردے اور مدارج معیشت کی اونچ نیچ معدوم ہوجائے، وہ یہ اصل تسلیم نہیں کرتا کہ احوال معیشت کا اختلاف قدرتی ہے اور اجتماع زندگی کی سرگرمی و ترقی کے لیے محور و محرک وہی ہے وہ کہتا ہے اس وقت تک حالت ایسی ہی رہی ہے لیکن اگر سوسائٹی کا نظام مساوات معشیت پر قائم کیا گیا تو دوسری طرح کی ذہنی اور معنوی محرکات پیدا ہوجائیں گی اور کارخانہ معیشت کی سرگرمی اسی طرح جاری رہے گی جس طرح اس وقت تک جاری رہی ہے۔ دنیا کا اس وقت تک کا تجربہ اس کے خلاف ہے اور روس کا نیا تجربہ بھی اس وقت تک اپنے نظریوں کو عملیت کا جامہ نہیں پہنا سکا ہے۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ سوشلزم کو اس مطالبہ کا حق ہے کہ مزید تجربہ کا موقع دیا جائے۔ (ولتعلمن نباہ بعد حین) حقیقت نفاق : (ل) قرآن نے کفر کی طرح نفاق کا بھی جابجا ذکر کیا ہے اور منافقوں کے اعمال و خصائل کی سب سے زیادہ تفصیل اسی سورت میں ملتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ ٹھیک طور پر سمجھ لیا جائے نفاق کی حقیقت کیا ہے اور منافقوں کی جماعت کس طرح کی جماعت تھی؟ (ا) دنیا میں ہم دیکھتے ہیں فکر و عمل کا کوئی گوشہ ہو تین طرح کے آدمی ضرور ہوتے ہیں : مستعد اور صالح طبعییتں، یہ ہر اچھی بات کو پہچان لیتیں اور قبول کرلیتی ہیں اور پھر سرگرم عمل ہوجاتی ہیں۔ مفسد طبیعتیں، انہیں ہر اچھی بات سے انکار ہوتا ہے، کوئی سیدھی بات ان کے اندر اترتی نہیں۔ درمیان گروہ : یہ ہر بات کو سن لینے اور مان لینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے لیکن فی الحقیقت اس کے اندر تیاری نہیں ہوتی۔ وہ قدم اٹھا دیتا ہے مگر چلنا نہیں چاہتا اور چلتا ہے تو پہلے ہی قدم میں لڑ کھڑا جاتا ہے۔ اس میں پہلے گروہ کی مستعدی نہیں ہوتی کہ جو بات مان لی اسے ٹھیک ٹھیک مان لے اور عمل کرے۔ اس میں دوسرے گروہ کی بے باکی و جرات بھی نہیں ہوتی کہ یکسو ہو کر صاف صاف انکار کردے۔ پس گو وہ سمجھتا ہے کہ ایک راہ اختیار کرلی ہے، لیکن فی الحقیقت دونوں راہوں میں سے کسی میں بھی نہیں ہوتا۔ جہاں تک اقرار کا تعلق ہے قبول کرنے والوں میں ہوتا ہے جہاں تک اذعان و عمل کا تعلق ہے منکروں کی سی حالت میں : (مذبذبین بین ذلک لا الی ھولاء ولا الی ھولاء) جزم و یقینن وار عزم و عمل پہلے گروہ کا خاصہ ہے۔ انکار، جحود دوسرے گروہ کا اور شک و تذبذب اور بے عملی و تعطل تیسرے کا۔ بعینہ یہی حال ایمان و عمل کے دائرہ کا بھی ہے، یہاں بھی طبیعت انسانی کی یہ تینوں حالتیں ظہور میں آتی ہیں۔ مستعد طبیعتیں قبول کرلیتی اور چل کھڑی ہوتی ہیں، یہ مومن ہیں، مفسد انکار کرتے اور مخالفت میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔ یہ کافر ہیں، کچھ لوگ قبول کرلیتے ہیں لیکن فی الحقیقت قبولیت کی روح ان کے اندر نہیں ہوتی یہ منافق ہیں۔ (٢) قرآن نے کفر کی طرح نفاق کے اعمال و خصائص بھی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔ کیونکہ کفر کی طرح نفاق بھی محض عہد نزول ہی کی پیداوار نہ تھا۔ ہمیشہ ظہور میں آنے والی گمراہی تھی اور انسان کی گمراہیاں کسی خاص عہد و نسل کی نہیں بلکہ نوع انسانی کی گمراہیاں ہوتی ہیں۔ (٣) ایک عام غلط فہمی یہ پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں منافقوں کا گروہ کافروں کا کوئی خاص سازشی گروہ تھا جو جاسوسوں کی طرح بھیس بدل کر مسلمانوں میں رہنے لگا تھا۔ باہر نکلتا تو مسلمان بن جاتا، اکیلے میں ہوتا تو اپنے اصلی بھیس میں لوٹ آتا، حالانکہ ایسا سمجھنا قرآن و احادیث کی صاف صاف تصریحات کو جھٹلانا ہے۔ ان لوگوں نے اسلام بطور اپنے دین و اعتقاد کے اسی طرح اختیار کرلیا تھا جس طرح دوسرے مسلمانوں نے، چنانچہ اسی سورت کی آیت (٧٤) میں ہے کہ : (وکفروا بعد اسلامھم) اسلام لاکر پھر کفر کی باتیں کیں، وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھے ان کی بیویاں انہیں مسلمان سمجھتی تھیں، ان کے بچے انہیں مسلمان سمجھتے تھے، ان کے گھر کا ہر فرد یقین کرتا تھا کہ ہم مسلمان ہیں، وہ نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، اسلام کے طور طریقے پر اولاد کی پرورش کرتے تھے۔ جہاں تک کسی دین کو بطور ایک دین کے اختیار کرلینے کا تعلق ہے کوئی بات ایسی نہ تھی جو بظاہر مسلمان ہونے کے خلاف ہو، تاہم قرآن نے فیصلہ کیا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ اسلام کا گھونٹ تو انہوں نے پی لیا تھا حلق کے نیچے اترا تھا، کسی تعلیم کو اختیار کرلینے کے بعد یقین و عمل کی جو روح پیدا ہونی چاہیے اس سے یک قلم محروم تھے، اخلاص اور صداقت کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جگہ نہیں تھی، وہ اللہ کا کلام سنتے مگر اس لیے نہیں کہ عمل کریں بلکہ اس لیے کہ محض سنتے رہیں۔ وہ نماز پڑھتے مگر بے دلی کے ساتھ، خیرات کرتے مگر مجبور ہوکر، ان کے دلوں میں دین سے زیادہ دنیا کا عشق تھا، اسلام کے جو احکام ان کے شخصی اغراض کے خلاف نہ ہوتے ان پر خوش خوش عمل کرتے، جو خلاف ہوتے ان سے نکل بھاگنا چاہتے، جب کبھی خوشحالیوں کا موقع ہوتا تو وہ سب سے پہلے مومن تھے، جب کبھی قربانیوں کا موقع آجاتا تو سب سے آخری صفوں میں بھی دکھائی نہ دیتے۔ جہاد کے تصور سے ان کی روحیں لرز جاتیں، انفاق کا حکم ان کے لیے موت کا پیام ہوتا، اسلام کے دشمنوں سے سازگاریاں رکھنے میں انہیں کچھ تامل نہ ہوتا۔ وہ سمجھتے تھے دونوں طرف ملے رہنے ہی میں مصلحت ہے، اگر پیام ہوتا اسلام کے دشمنوں سے سازگاریاں رکھنے میں انہیں کچھ تامل نہ ہوتا، وہ سمجھتے تھے دونوں طرف ملے رہنے ہی میں مصلحت ہے، اگر بازی الٹ پڑی اور دشمن فتح مند ہوگئے تو ان کے پاس بھی اپنی بنی رہے گی۔ ایمان و کفر کی طرح نفاق کی تمام حالتیں بھی یکساں نہیں، اور نہیں تھیں، چونکہ اصل کے اعتبار سے یہ حالت بھی انکار ہی کی ایک قرار نما صورت ہے اس لیے جب بڑھتی ہے تو انکار قطعی ہی کی طرف بڑھتی ہے اور اسی کے خصائص رونما ہونے لگتے ہیں۔ کسی میں کم کسی میں زیادہ، چنانچہ اس عہد کے منافقوں کی حالت نفاق یکساں نہ تھی۔ عبداللہ بن ابی کا نفاق ہر منافق کا نفاق نہ تھا، خود قرآن نے اسی سورت کی آیت (١٠١) میں اس طرف اشارہ کیا ہے : وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اھل المدینۃ مردوا علی النفاق) کسی کے نفاق کا رخ زیادہ تر اس طرف تھا کہ ہجرت سے جی چراتے تھے۔ کسی پر انفاق مال شاق تھا، کوئی جہاد سے بچنا چاہتا تھا، کسی پر نماز کا قیام سخت گزرتا تھا، کوئی ایسا بھی تھا کہ احکام الہی اور آیات قرآنی کی ہنسی اڑاتا تھا اور اس تاک میں تھا کہ اگر مسلمانوں پر کوئی آفت آپڑے تو کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھ ہوجائے۔ تاہم یہ قطعی ہے کہ ان سب نے اسلام بطور اپنے دین و طریقہ کے قبول کرلیا تھا اور مسلمانوں ہی میں سمجھے جاتے تھے، یہ بات نہ تھی کہ محض ایک سازشی گروہ بھیس بدل کر مسلمانوں میں آملا ہو اور مسلمانوں میں سے نہ ہو۔ منافقوں کے اعمال و خصائص : (ا) جب راہ حق میں جان و مال کی قربانی کا وقت آتا تو طرح طرح کے حیلے بہانے نکالتے اور کہتے ہمیں گھر بیٹھ رہنے کی اجازت مل جائے۔ (ب) مسلمانوں میں ہمیشہ فتنہ پھیلاتے، کمزور اور ناسمجھ آدمیوں کو گمراہ کرتے، ادھر کی بات ادھر لگاتے۔ (ج) جب کبھی جماعت کے لیے کوئی نازل وقت آجاتا تو اس طرح کی باتیں نکالتے کہ دوسروں کے دل بھی کمزور پڑجاتے اور کوئی نہ کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا۔ چنانچہ احد میں انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس موقع پر بھی کمی نہیں کی۔ (د) دینداری کے بھیس میں اپنا نفاق چھپاتے اور کہتے اس کام میں ہمارے لیے فتنہ ہے، اس لیے شریک نہیں ہوسکتے۔ (ہ) مسلمانوں کی مصیبت ان کے لیے مصیبت نہیں ہوتی اور نہ ان کی خوشی ان کے لیے خوشی۔ (و) جب کوئی جماعتی معاملہ پیش آجاتا تو اس کا ساتھ نہ دیتے اور طرح طرح کی فتنہ اندازیاں کرتے، پھر اگر کوئی حادثہ پیش آجاتا تو کہتے ہم نے پہلے ہی یہ بات معلوم کرلی تھی۔ اسی لیے ساتھ نہیں دیا تھا اور پھر بجائے اس کے کہ قوم کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھیں دل میں خوش ہوتے کہ چلو اچھا ہوا کامیاب نہ ہوئے۔ (ز) نماز پڑھیں گے تو اس بے دلی سے کہ معلوم ہوگا ایک بوجھ آپڑا ہے اور چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پٹک کر الگ ہوجائیں۔ (ح) نیکی کی راہ میں خوش دلی سے کبھی خرچ نہ کریں، کنجوسی ان کی سب سے بڑی علامت ہے۔ (ط) قسمیں کھا کھار کر یقین دلائیں گے کہ ہمیں مخالف نہ سمجھو حالانکہ دل میں نفاق بھرا ہوا ہے۔ (ی) چونکہ دلوں میں کھوٹ ہے اس لیے ڈرے سہمے رہتے ہیں اور بہت سے کام دل کی خواہش سے نہیں بلکہ محض جماعت کے خوف سے کرتے ہیں۔ (ک) چونکہ راہ حق کی آزمائشیں پیش آتی رہتی ہیں اور دل میں اخلاص و یقین نہیں ہے اس لیے بسا اوقات صورت حال سے ایسے مضطرب ہوجاتے ہیں کہ اگر چھپ بیٹھنے کی کوئی جگہ مل جائے تو فورا رسی تڑا کر بھاگ کھڑے ہوں۔ (ل) غرض کے بندے ہیں، ان کی خوشنودی اور ناراضی کا سارا دارومدار دنیا اور دنیا کا حصول ہے، اگر صدقات کی تقسیم میں انہیں بھی کچھ دے دیا جائے تو خوش رہیں گے، نہ دیا جائے تو بگڑ بیٹھیں گے۔ (م) چونکہ ایمان و راہتی سے محروم ہیں اس لیے حق و ناحق کی کچھ پروا نہیں۔ جس طرح بھی ملے مال و دولت حاصل کرنی چاہیے۔ صدقات و خیرات کے مستحق نہیں لیکن اس کے حصول کے خواہش مند رہتے ہیں۔ (ن) اگر ان کی ہوائے نفس کے خلاف کوئی فیصلہ ہو تو فورا طعنہ زنی پر اتر آئیں کہ دوسروں کی طرف داری کی جاتی ہے۔ (س) پیغمبر اسلام مخلص مومنوں کا اخلاص پہچانتے اور انہیں قابل اعتماد سمجھتے تھے۔ یہ بات منافقوں پر شاق گزرتی حتی کہ بعضوں نے کہا وہ کان کے کچے ہیں لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ (ع) جب دیکھتے ہیں کہ ان کی منافقانہ روش پر عام برہمی پیدا ہوگئی تو قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یقین دلاتے اور انہیں اپنے سے راضی رکھنا چاہتے۔ قرآن کہتا ہے ان کی حق فراموشی دیکھو، انہیں خدا کی تو کچھ پروا نہیں کہ بدعملیاں کیے جاتے ہیں لیکن انسانوں کی اتنی پروا ہے کہ جونہی ان کی نگاہیں بدلی ہوئی نظرآئیں، لگے خوشامد کرنے اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے۔ فی الحقیقت انسانی گمراہی کی بو العجبیوں میں سے ایک عجیب بو العجبی یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھنے کا مدی ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ تاہم ہر طرح کی معصیتیں کیے جائے گا اور ایک لمحہ کے لیے اسے خیال نہ ہوگا کہ میں کیا کر رہا ہوں لیکن جونہی انسانوں کی نظر میں اس کی معصیتیں نمایاں ہوئیں اس کے ہوش و حواس گم ہوجائیں گے اور ہزار طرح کے جتن کرے گا کہ کہیں وہ اسے برا نہ سمجھتے لگیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت اسے خدا کی ہستی کا یقین نہیں، کیونکہ اگر یقین ہوتا اسی درجہ کا یقین جس درجہ کا یقین انسانوں کی موجودگی پر رکھتا ہے تو ممکن نہ تھا کہ اس سے بے پروا ہوجاتا۔ قرآن کہتا ہے یہی حالت نفاق کی حالت ہے۔ (ف) دین کے بارے میں ان کی زبانیں چھوٹ ہیں، لیکن جب پکڑے جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے بطور تفریح اور مزاح کے ایک بات کہہ دی تھی، سچ مچ کو ہمارا یہ مطلب نہ تھا، قرآن کہتا ہے یہ عذر گناہ بدتراز گناہ ہے، کیونکہ اس سے معلوم ہوا تم اللہ کی اس کی آیتوں کی اس کے رسول کی ہنسی اڑاتے ہو۔ (ص) جس طرح مومن مرد اور عورتیں راہ حق میں ایک دوسرے کے رفیق و معاون ہیں اسی طرح منافق راہ منافق میں ایک دوسرے کے رفیق و معاون ہیں۔ (ق) کذب گوئی ان کا شعار ہے، صریح ایک بات کہیں گے اور پھر انکار دیں گے۔ (ر) بعضوں کا یہ حال ہے کہ عہد کرتے ہیں، خدایا اگر تو ہم پر فضل کرے تو ہم تیری راہ میں خیرات کریں گے اور نیکی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن جب اللہ فضل کرتا ہے تو پھر بے تامل بخیلی پر اتر آتے ہیں اور کچھ اس کی راہ میں نہیں نکالتے، اس کی طرف سے رخ پھیرے رہتے ہیں۔ (ش) ان کا ایک وصف یہ ہے کہ خود تو کچھ کریں گے نہیں لیکن کرنے والوں کے خلاف زبان کھولنے میں ہمیشہ بے باک رہیں گے۔ مثلا اگر خوش حال آدمیوں نے بڑی بڑی رقمیں راہ حق میں نکالیں تو کہیں گے دکھاوے کے لیے یا کسی دنیوی غرض کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ اگر کوئی غریب آدمی اپنی محنت مزدوری کی کمائی میں سے چار پیسے نکال کر رکھ دے گا تو اس کی ہنسی اڑائیں گے کہ واہ اچھی خیرات کی۔ (ت) راہ حق میں محنتیں مشقتیں برداشت کرنا ان کی سمجھ میں نہیں آتا، غزوہ تبوک کا معاملہ سخت گرمی میں پیش آیا تھا اس لیے لوگوں سے کہتے تھے اس گرمی میں کہاں جاتے ہو؟ (ث) ایمان کے ضعف نے انہیں مردانگی کے احساس وغیرت سے بھی محروم کردیا، جب لوگ قوم و ملت کی راہ میں جان و مال قربان کرتے ہیں تو وہ عورتوں کے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور ذرا بھی نہیں شرماتے۔ (خ) کچھ لوگ ایسے ہیں جو نفاق کی حالت میں شب و روز رہتے رہتے بڑے مشاق ہوگئے ہیں، دوسرے اتنے مشاق نہیں، جو مشاق ہیں تم انہیں تاڑ نہیں سکتے۔ (ذ) بعض لوگ دینداری کے بھیس میں ایسی راہیں نکالتے کہ مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ہو اور ان کے مقاصد کو نقصان پہنچے۔ مثلا ایک مسجد بنائی اور پیغمبر اسلام سے عرض کیا آپ اس میں نماز پڑھا دیں تو ہمارے لیے برکت و سعادت ہو، مقصود یہ تھا کہ اپنے اجتماع کے لیے ایک نیا حلقہ پیدا کریں اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ہو۔ (ض) کوئی سال نہیں گزرتا کہ ان کے لیے تنبیہ و اعتبار کی کوئی نہ کوئی بات ظہور میں نہ آجاتی ہو لیکن غفلت کا یہ حال ہے کہ نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ عبرت پکڑتے ہیں۔ (٥) سورۃ آل عمران، نساء، انفال، احزاب، محمد، فتح، حدید، مجادلہ اور حشر بھی منافقوں کے اعمال و خصائص بیان کیے گئے ہیں اور ایک پوری سورت منافقون انہی کے حالات میں ہے۔ چاہیے کہ اس موقع پر فہرست سے مدد لے کر وہ تمام مقامات بھی دیکھ لیے جائیں۔ (٦) یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ سورۃ بقرہ کی آیت (٨) (ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وما ھم بمومنین) میں اور اس کی بعد کی آیتوں میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے مقصود منافقوں کی یہ جماعت نہیں ہے بلکہ یہود و نصاری ہیں جو ایمان باللہ کا دعوی کرتے تھے مگر حقیقتا ایمان کی روح ان میں باقی نہیں رہی تھی۔ فی الحقیقت یہ حالت بھی نفاق ہی کی حالت ہے جو ایک مدت کے جمود و اعراض کے بعد پیروان مذاہب پر طاری ہوجاتی ہے لیکن مقصود اس سے مدینہ کے منافق نہیں ہیں۔ (٧) یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ان احادیث کا مطلب کیا ہے جن میں نفاق کی خصلتیں بیان کی گئی ہیں اور فرمایا ہے جس میں یہ خصلت ہو تو سمجھ لو نفاق کی خصلت آگئی۔ مثلا (اربع، من کن فیہ، کان منافقا خالصا، ومن کانت فیہ خصلۃ منھن، کانت فیہ خصلۃ من النفاق) (بخاری) (ولو صلی و صام، وزعم انہ مسلم) (مسلم) یعنی چار خصلتیں ہیں۔ جس میں یہ چاروں جمع ہوجائے وہ پورا منافق ہے اور جس میں کوئی ایک خصلت پائی جائے تو سمجھ لو نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی۔ مسلم کے لفظ میں یہ بھی ہے اگرچہ وہ نما پڑھتا ہو، روزہ رکھتا ہو اور اس زعم میں ہو کہ مسلمان ہے، پھر وہ خصلتیں بیان کی ہیں جو سچے مومن میں نہیں ہونی چاہیے۔ مثلا امانت میں خیانت، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی، غصہ میں آکر بے قابو ہوجانا، تو معلوم ہوا نفاق کوئی ایسی حالت نہ تھی جو صرف آنحضرت کے زمانہ ہی میں ظہور پذیر ہوئی ہو۔ اور نہ منافقوں کا گروہ کوئی ایسا گروہ تھا جو محض چھپے کافروں کا ایک سازشی گروہ ہو۔ یہ اعمال و عمل کی کمزوری کی ایک زیادہ سخت حالت ہے اور جس طرح اس زمانہ میں تھی اسی طرح ہر زمانے میں ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے۔ اگر آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے ایمان و عمل کا احتساب کرے تو اسے معلوم ہوجائے کہ نفاق کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اور کسی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، وہ اپنے ہی وجود میں اسے دیکھ سکتی ہے۔ دقائق ہستی کے احوال ثلاثہ : (٨) یہ جو قرآن نے انسان کے عقائد و اعمال کی تین حالتیں قرار دیں : ایمان، کفر، نفاق تو فی الحقیقت عالم ہستی کے تمام گوشوں میں اصلا تین ہی حالتیں پائی جاتی ہیں۔ یا تو تکوین کی حالت ہوگی یا فساد کی حالت ہوگی یا پھر دونوں کی درمیانی حالت، خود اپنے وجود ہی کو دیکھ لو، یا زندگی ہے یا موت ہے یا بیماری ہے۔ بیماری کو نہ تو زندگی کی صحیح حالت کہہ سکتے ہیں نہ موت ہی قرار دے سکتے ہیں، دونوں کے بین بین ہے لیکن رخ اس کا موت ہی کی طرف ہے۔ قلب و روح کا بھی یہی حال ہوا، ایمان زندگی ہے، موت کفر ہے اور نفاق بیماری۔ یہ مقام مہمات معارف قرآنی میں سے ہے لیکن : گر نویسم شرح آں بے حد شود۔۔۔ مثنوی ہفتاد من کاغذ شود مسجد ضرار : آیت (١٠٧) میں جس مسجد کا ذکر کیا گیا ہے اور جا تاریخ اسلام میں مسجد ضرار کے نام سے یاد کی جاتی ہے اس کا مختصرا حال یہ ہے۔ پیغمبر اسلام جب مدینہ آئے تو پہلے قبا نامی مقام میں قیام فرمایا، یہاں آپ کے حکم سے ایک مسجد تعمیر ہوئی تھی جو عہد اسلام کی پہلی مسجد ہے۔ بعض منافقوں نے جن کی تعداد بعض روایات سے بارہ ثابت ہوتی ہے، اسی مسجد کے پاس ایک نئی مسجد تعمیر کی اور جب پیغمبر اسلام تبوک کے لیے نکل رہے تھے تو آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا۔ ایک دن وہاں آکر نماز پڑھا دیجیے۔ آپ نے فرمایا ابھی تو سفر درپیش ہے۔ واپسی پر دیکھا جائے گا، پھر جب آپ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ نے بانیان مسجد کے منافقانہ مقاصد سے آپ کو مطلع کردیا، آپ نے فورا حکم دیا کہ یہ مسجد گرا دی جائے۔ چنانچہ قبل اس کے کہ مدینہ پہنچیں، مسجد منہدم کردی گئی تھی۔ اس آیت میں مسجد بنانے کے چار مقصد بیان کیے ہیں ؛ (ا) ضرارا، یعنی ان کا مطلب یہ ہے کہ قبا کے مخلص مومنوں کو نقصان پہنچائیں، کیونکہ مسجد قبا کی وجہ سے انہیں ایک خاص عزت حاصل ہوگئی ہے۔ یہ حسد و عناد سے چاہتے ہیں ان کی یہ خصوصیت باقی نہ رہے۔ (ب) و کفرا کفر کے مقاصد پورے ہوں، یعنی اپنی الگ مسجد ہوجائے گی تو مسجد قبا میں نماز کے لیے جانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی اور اس طرح نماز ترک کرنے کا موقع مل جائے گا۔ کیونکہ لوگ سمجھیں گے انہوں نے اپنی مسجد میں نماز پڑھ لی، یہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں گے، اس سے معلوم ہوا کہ ترک نماز کی حالت ایک ایسی حالت ہے جسے قرآن کفر کی حالت سے تعبیر کرتا ہے۔ نیز معلوم ہوا کہ نیک کاموں کا نیک ہونا مقصد و نیت پر موقوف ہے ورنہ مسجد بنانے جیسا نیک کام بھی کفر کے لیے ہوجاسکتا ہے۔ (ج) (وتفریقا بین المومنین) مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لیے، کیونکہ قبا کی تمام آبادی ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتی تھی، اب بالکل اس کے پاس دوسری مسجد بنے گی تو جماعت بٹ جائے گی۔ کچھ لوگ پچھلی مسجد میں جائیں گے، کچھ نئی میں اور جب ایک جماعت نہ رہی تو مسلمانوں کے باہمی اجتماع و تعارف کا وہ مقصد بھی فوت ہوگیا جو قیام جماعت کے اہم ترینن مقاصد میں سے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک مسجد اگر موجود ہو تو بلا ضرور دوسری مسجد اس کے قریب تعمیر کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنا تفریقا بین المومنین ہے، اور یہی وجہ ہے کہ تمام ائمہ اسلام نے اتفاق کیا کہ ہر شہر میں جمعہ کی جماعت ایک ہی جگہ ہونی چاہیے، اور اگر آبادی اتنی زیادہ ہوجائے کہ ایک جگہ کافی نہ ہو تو پھر بقدر ضرورت ایک سے زیادہ مساجد میں جمعہ قائم کیا جائے۔ یہ نہیں کرنا چہایے کہ بلا ضروری بہت سی مسجدیں تعمیر کردی جائیں اور ہر مسجد میں جمعہ شروع کردیا جائے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے یہ صریح حکم قرآنی پس پشت ڈال دیا اور محض ریاکاری اور نام و نمود کے لیے یا کسی سابق مسجد اور اس کے مہتمموں کو نقصان پہنچانے کے لیے بکثرت مسجدیں، ہر شہر و قریہ میں تعمیر کردیں اور روز بروز تعمیر کرتے جاتے ہیں۔ اگر ان کی تعمیر کے حالات و مقاصد کا جائزہ لیا جائے تو بڑی تعداد ٹھیک ٹھیک مسجد ضرار کی سی مسجدیں ثابت ہوں گی مگر کوئی نہیں جو اس فساد سے لوگوں کو روکے بلکہ خود علماء و مشائخ اپنے شخص انتفاع و ترفع کے لیے اس مفسدانہ فعل کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور اپنے معتقدوں کو تعمیر مسجد کے بے محل ثواب سنا سنا کر مزید ترغیبیں دیتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کی تفریق و انتشار کا یک بڑا باعث مسجدوں کا وجود بھی ہوگیا ہے۔ ایک ہی محلہ میں چار چار پانچ پانچ جگہ جماعتیں ہوتی ہیں۔ ایک ہی رقبہ میں بلا ضرورت ایک سے زیادہ جگہ جمعہ پڑھا جاتا ہے، پھر صرف اتنے ہی پر قدم افساد نہیں رکا بلکہ عیدیں کی جماعتیں بھی مسجدوں میں ہونے لگے ہیں حالانکہ ایسا کرنا صریح سنت مستمرہ کے خلاف ہے اور اجتماع عیدین کا مقصد عظیم ضائع کردینا ہے۔ (د) و ارصادا لمن حارب اللہ ورسولہ من قبل۔ اللہ اور اس کے رسول سے جس نے جنگ کی اس کے لیے ایک کمین گاہ پیدا کری جائے، یا اس کے انتظار و توقع میں پہلے سے ایک جگہ بنا دی جائے۔ یعنی دشمنان اسلام کے لیے جن سے یہ لوگ ساز باز رکھتے ہیں اٹکنے کی جگہ پیدا ہوجائے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں قبیلہ خزرج کا ایک آدمی ابو عامر راہب تھا جو ظہور اسلام سے پہلے عیسائی ہوگیا تھا۔ جب پیغمبر اسلام مدینہ تشریف لائے تو کلمہ اسلام کا عروج اس پر شاق گزرا اور اسلام کے خلاف سازشوں میں سرگرم ہوگیا، پہلے قریش مکہ کا ساتھ دیا پھر شہننشاہ قسطنطنیہ کے پاس پہنچا اور اسے مسلمانوں پر حملہ کی ترغیب دی۔ قبا کے بعض منافقین میں اور اس میں قدیم سے رسم و راہ تھی، یہ انہیں اسلام کے خلاف اکساتا رہتا اور رومیوں کے حملہ کا یقین دلاتا۔ یہاں لمن حارب اللہ و رسول میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ (٩) اس سورت میں منافقوں کے لیے حسب ذیل احکام دیے گئے ہیں : (ا) ایسے لوگوں کا انفاق قبول نہ کیا جائے (آیت (٨٣) اس سے معلوم ہوا کہ جو افراد جماعت کے مقاصد کو نقصان پہنچائیں امام کو چاہیے ان کی مالی اعانات قبول کرنے سے انکار کردے۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا مال قبول کرنا انہیں بدعملیوں اور شرارتوں پر جرات دلانا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم روپیہ خرچ کر کے اپنے منافقانہ اعمال کی پردہ پوشی کرتے رہیں گے۔ (ب) صاف صاف کہہ دیا کہ یہ لوگ بھی معاندوں کی طرح نجات اخروی سے محروم رہیں گے اگرچہ اپنے کو مومن سمجھتے ہیں۔ (آیت : ٦٨) (ج) مناقوں سے بھی جہاد کرنے کا حکم دیا گیا (آیت : ٧٣) اس سورت کے دوسرے احکام و مواعظ کی طرح اس حکم کا تعلق بھی آئندہ پیش آنے والے واقعات سے تھا۔ چنانچہ جب پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد فتنہ نفاق نے سر اٹھایا اور متعدد قبائل نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا تو صحابہ کرام نے اس حکم کی تعمیل کی اور ان سے قتال کرنے پر متفق ہوگئے۔ (د) اشرار منافقین کی نسبت فرمایا جو ان میں سے بغیر توبہ کیے مرجائیں گے وہ کبھی بخشے نہیں جائیں گے، اگرچہ خود پیغمبر اسلام بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ (آیت : ٨٠) سورۃ منافقون میں فرمایا تھا : (سواء علیھم استغفرت لھم ام لم تستغفرلھم) تم ان کے لیے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو دونوں حالتیں ان کے لیے یکساں ہیں۔ وہ بخشے جانے والے نہیں۔ یہاں یہی بات زیادہ زور دے کر کہی گئی کہ (ان تستغفرلھم سبعین مرۃ) تم ستر مرتبہ (یعنی سینکڑوں مرتبہ) ہی کیوں نہ دعائے مغرت کرو مگر یہ بخشے جانے والے نہیں۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب عبداللہ بن ابی کا انتقام ہوا تو اس کے لڑکے نے آپ سے درخواست کی کہ کفن کے لیے اپنا پیراہن عطا فرمائیں اور نماز جنازہ پڑھا دیں، اور آپ نے درخواست منظور کرلی۔ حضرت عمر پر یہ بات شاق گزری تھی، مگر آپ نے فرمایا : (لو اعلم انی ان ازدت علی السبعین غفرلہ، لزدت علیھا) (بخاری والجماعہ) اس حدیث اور آیت مندرجہ صدر کی تطبیق میں مفسرین کو مشکلات پیش آئی ہیں، لیکن فی الحقیقت معاملہ بالکل واضھ ہے اور تشریح اس کی سورۃ منافقون کے نوٹ میں ملے گگگی۔ (ہ) جن منافقوں نے اس موقع پر شرکت نہ کی آئندہ اگر وہ کسی ایسے کام میں شریک ہونا چاہیں تو صاف انکار کردیا جائے اور انہیں شریک نہ کیا جائے۔ (آیت : ٨٣) (و) ان میں سے جو کوئی بغیر توبہ کیے مرجائے پیغمبر اسلام اس کے جنازہ میں شریک نہ ہوں اور نہ حسب معمول دعا مانگیں (آیت : ٨٤) حضرت حذیفہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم خاص خاص منافقوں کے لیے ہوا تھا اور آنحضرت نے ان کے نام بتلا دیے تھے۔ جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ یہ بارہ آدمی تھے۔ (فتح الباری) (ز) اگر یہ لوگ معذرت کریں تو صاف صاف کہہ دیا جائے کہ اب تمہاری زبانی معذرتیں نہیں سنی جائیں گی۔ عمل دیکھا جائے گا۔ آئندہ اگر تمہارے اعمال سے اخلاص ثابت ہوا تو سمجھا جائے گا کہ تائب ہوگئے، نہیں تو منافق متصور ہوں گے۔ (آیت : ٩٤) (ح) مسلمانوں کو حکم ہوا ان سے گردن موڑ لو، یعنی ان سے ربط ضبط نہ رکھو۔ (آیت : ٩٥) (١٠) اس باب میں بے شمار امور تفصیل طلب ہیں اور مباحث تفسیر و حدیث کے متعدد مقامات ہیں جن کی وضاحت و تحقیق ضروری ہے لیکن مزید تفصیل کا یہ موقعہ نہیں، البیان کا انتظار کرنا چاہیے۔ شرح مقام ورضوا عنہ : (ل) آیت (١٠٠) میں سابقون الاولون اور ان کے متبعین کی نسبت فرمایا : (رضی اللہ عنہھم ورضوا عنہ) اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، اس مقام کا ایک پہلو قابل غور ہے جس پر لوگوں کی نظر نہیں پڑی، یعنی (ورضوا عنہ) پر کیوں زور دیا گیا؟ اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ اللہ ان سے خوشنود ہوا۔ کیونکہ ان کے اعمال اللہ کی خوشنودی کے لیے تھے، یہ بات خصوصیت کے ساتھ کیوں کہی گئی کہ وہ بھی اللہ سے خوشنود ہوئے؟ اس لیے کہ ان کے ایمان و اخلاص کا اصلی مقام بغیر اس کے نمایاں ہوسکتا تھا۔ انسان جب کبھی کسی مقصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور مصیبتوں سے دورچار ہوتا ہے تو دو طرح کی حالتیں پیش آتی ہیں : کچھ لوگ جو انمرد اور باہمت ہوتے ہیں۔ وہ بلاتامل ہر طرح کی مصیبتیں جھیل لیتے ہیں، لیک ان کو جھیلنا جھیل لینا ہی ہوتا ہے، یہ بات نہیں ہوتی کہ مصیبتیں ان کے لیے مصیبتیں نہ رہی ہوں، عیش و راحت ہوگئی ہوں، کیونکہ مصیبت پھر مصیبت ہے، باہمت آدمی کڑا گھونٹ بغیر کسی جھجک کے پی لے گا لیکن اس کی کڑواہٹ کی بدمزگی محسوس ضرور کرے گا۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں صرف باہمت ہی نہیں کہنا چاہیے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ سمجھنا چاہیے۔ ان میں صرف ہمت و جوانمردی ہی نہیں ہوتی بلکہ عشق و شیفگتی کی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ مصیبتوں کو مصیبتوں کی طرح نہیں جھیلتے بلکہ عیش و راحت کی طرح ان سے لذت و سرور حاصل کرتے ہیں۔ راہ محبت کی ہر مصیبت ان کے لیے عیش و راحت کی ایک نئی لذت بن جاتی ہے۔ اگر اس راہ میں کانٹوں پر لوٹنا پڑے تو کانٹوں کی چبھن میں انہیں ایسی راحت ملے جو کسی کو پھولوں کی سیج پر لوٹ کر نہیں مل سکتی حتی کہ اس راہ کی مصیبتیں جس قدر بڑھتی جاتی ہیں اتنی ہی زیادہ ان کے دل کی خوشحالیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں، ان کے لیے صرف اس بات کا تصور کہ یہ سب کچھ کسی کی راہ میں پیش آرہا ہے اور اس کی نگاہیں ہمارے حال سے بے خبر نہیں عیش و سرور کا ایک ایسا بے پایاں جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ اس کی سرشاری میں جسم کی کوئی کلفت اور ذہن کی کوئی اذیت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ یہ بات سننے میں تمہیں عجیب معلوم ہوتی ہوگی لیکن فی الحقیقت حالت میں اتنی عجیب نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے معمولی واردات میں سے ہے، اور عشق و محبت کا مقام تو بہت بلند ہے بو الہوسی کا عالم بھی ان واردات سے خالی نہیں : حریف کاوش مژگان خونریزش نہ ناصح۔۔۔ بہ دست آور رگ جانے و نشتر را تماشا کن !!! سابقون الاولون کی محبت ایمانی کا یہی حال تھا۔ ہر شخص جو ان کی زندگی کے سوانح کا مطالعہ کرے گا بے اختیار تصدیق کرے گا کہ انہوں نے راہ حق کی مصیبتیں صرف جھیلی ہی نہیں، بلکہ دل کی پوری خوشحالی اور روح کے کامل سرور کے ساتھ اپنی پوری زندگیاں ان میں بسر کر ڈالیں۔ ان میں سے جو لوگ اول دعوت میں ایمان لائے تھے ان پر شب و روز کی جاں کا ہیوں اور قربانیوں کے پورے تئیس برس گزر گئے لیکن اس تمام مدت میں کہیں سے بھی یہ بات دکھائی نہیں دیتی کہ مصیبتوں کی کڑواہٹ ان کے چہروں پر کبھی کھلی ہو، انہوں نے مال و علائق کی ہر قربانی اس جوش و مسرت کے ساتھ کی گویا دنیا جہان کی خوشیاں اور راحتیں ان کے لیے فراہم ہوگئی ہیں۔ اور جان کی قربانیوں کا وقت آیا تو اس طرح خوش خوش گردنیں کٹوا دیں گویا زندگی کی سب سے بڑی خوشی زندگی میں نہیں بلکہ موت میں تھی۔ ان میں ایک بڑٰ تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے اتنی عمریں نہیں پائیں کہ اسلام کی غربت کے ساتھ اسلام کا عروج و اقبال بھی دیکھ لیے تے اور عدی بن حاتم کی طرح کہہ سکتے کنت فی من افتح کنوز کسری۔ تاہم جب دنیا سے گئے تو اس عالم میں گئے کہ ان سے زیادہ عیش و خوشحالی میں شاید ہی کسی نے دنیا چھوڑی ہو۔ بدر اور احد کے شہیدوں کے حالات پڑھو، ایمان لانے کے بعد جو کچھ بھی ان کے حصے میں آیا وہ بجز رات دن کی کاہشوں اور مصیبتوں کے اور کیا تھاْ اور پھر قبل اس کے کہ اسلام کے فتح و اقبال کی کامرانیوں میں شریک ہونے کا موقع ملتا دشمنوں کی تیغ و سنان سے چور میدان جنگ میں دم توڑ رہے تھے۔ لیکن پھر بھی غور کرو ان کے دل کی شادمانیوں کا کیا حال تھا؟ اس اطمینان و سکون کے ساتھ عیش و نشاط کے بستروں پر کسی نے جان نہ دی ہوگی جس طرح انہوں نے میدان جنگ کی ریتلی زمین پر لوٹ لوٹ کردی۔ جنگ احد میں سعد بن ربیع کو لوگوں نے دیکھا زخمیوں میں پڑے سانس توڑ رہے ہیں، پوچھا کوئی وصیت کرنی ہو تو کردو، کہا اللہ کے رسول کو میرا سلام پہنچا دینا اور قوم سے کہنا ان کی راہ میں جانیں نثار کرتے ہیں۔ عمارہ بن زیادہ زخموں سے چور جانکنی کی حالت میں تھے کہ آنحضرت سرہانے پہنچ گئے، فرمایا کوئی آرزو ہو تو کہہ دو، عمارہ نے اپنا زخمی جسم گھسیٹ کر اور زیادہ قریب کردیا اور اپنا سر آپ کے قدموں پر رکھ دیا کہ اگر کوئی آرزو ہوسکتی ہے تو صرف یہی ہے : منم و ہمیں تمنا کہ بہ وقت جاں سپردن۔۔۔ بہ رخ تو دیدہ باشم، تو درون دیدہ باشی !! عورتوں تک کا یہ حال تھا کہ بیک وقت انہیں ان کے شوہر، بھائی اور باپ کے شہید ہوجانے کی خبر پہنچائی جاتی تھی اور وہ کہتی تھیں۔ یہ تو ہوا مگر بتلاؤ اللہ کے رسول کا کیا حال ہے؟ پھر جب آپ کا جمال جہاں آرا نظر آتا تو بے اختیار خوش ہو کر پکار اٹھتیں : (کل مصیبۃ بعدک جلل) تو اگر سلامت ہے تو پھر دنیا کی ساری مصیتیں ہمارے لیے شہد و شکر کا گھونٹ ہوگئیں۔ من و دل گر فنا شدیم چہ باک۔۔۔ غرض اندر میان سلامت اوست تاریخ اسلام میں جنگ حنین پہلی جنگ ہے جس میں بکثرت مال غنیمت ہاتھ آیا، چوببیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی کا ذکر روایا میں ملتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ سابقون الاولون کو مال و دولت سے حصہ وافر ملتا لیکن آنحضرت نے ان باشندگان مکہ کو ترجیح دی جو فتح مکہ کے بعد نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور انصار مدینہ کے حصہ میں کچھ نہ آیا، کیونکہ آپ کے پیش نظر نو مسلموں کی تالیف قلب تھی، یہ حالت دیکھ کر بعض نوجوانوں کو خیال ہوا اہل مکہ سے لڑے تو ہم، لیکن آج مال غنیمت کا حصہ مل انہیں رہا ہے۔ بات آنحضرت تک پہنچی تو آپ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا (الا ترضون ان یذھب الناس بالشاۃ والبعیر، وتذھبون بالنبی الی رحالکم؟) کیا تمہاری خوشنودی کے لیے یہ بات کافی نہیں کہ لوگ یہاں سے مال غنیمت کے حصے لے کر جائیں اور تم اللہ کے نبی کو اپنے ساتھ لے کر جاؤ؟ انصار بے اختیار پکار اٹھے (رضینا یا رسول اللہ رضینا) ہم خوشنود ہیں یارسول اللہ، ہم خوشنود ہیں۔ (صحیحین) اور پھر غور کرو، جو لوگ (واتبعوھم باحسان) میں داخل ہوئے، انہیں بھی کس درجہ اس مقام سے حصہ وافر ملا تھا؟ دنیا میں شاید ہی کسی عورت کے دل میں اپنے عزیزوں کے لیے ایسی محبت پیدا ہوئی ہوگی جیسی جاہلیت کی مشہور شاعرہ خنساء کے دل میں تھی، اس نے جو مرثیے اپنے بھائی صخر کے غم میں کہے ہیں تمام دنیا کی شاعری میں اپنی نظیر نہیں رکھتے : یذکرنی طلوع الشمس صخرا۔۔۔ واذکرہ بکل غروب شمس لیکن ایمان لانے کے بعد اسی خنساء کی نفسیاتی حالت ایسی منقلب ہوگئی کہ جنگ یرموک میں اپنے تمام لڑکے ایک ایک کر کے کٹوا دیے اور جب آخری لڑکا بھی شہید ہوچکا تو پکار اٹھی : (الحمدللہ الذی اکرمنی بشھادتھم) پس ورضوا عنہ میں اشارہ اسی طرف ہے کہ اللہ اور اسکے کلمہ حق کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آیا انہوں نے اسے جھیلا ہی نہیں بلکہ کمال محبت ایمانی کی وجہ سے اس میں خوشحال و خوشنود رہے اور یہی مقام ہے جو ان کے درجہ کو تمام مدارج ایمان و عمل میں ممتاز کردیتا ہے۔ تعجب ہے کہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفسروں کی نظر اس صاف اور واضح بات کی طرف نہ گئی۔ البیان میں مزید تفصیل ملے گی۔ ترک موالات کا حکم اور اس کی حقیقت : (م) اس سورت میں جابجا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دشمنوں سے رفاقت و اعانت کے رشتے نہ رکھو اگرچہ وہ تمہارے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں اور دوسری سورتوں میں بھی ایسے ہی احکام موجود ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اور اس طرح کے تمام احکام، احکام جنگ میں سے ہیں نہ کہ معیشت و علائق کے عام احکام اور یہ بات خود قرآن نے جابجا اس درجہ وضاحت اور قطعیت کے ساتھ واضح کردی ہے کہ شک و تردد کی ذرا بھی گنجائش نہیں رہی ہے۔ جہاں تک ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ معاملہ کرنے کا تعلق ہے قرآن کہتا ہے اصل اس باب میں محبت و شفقت، ہمدردی و سلوک اور تعاون و سازگاری ہے، اس کے سوا کوئی بات نہیں ہوسکتی، وہ کہتا ہے ہر انسان دوسرے انسان کا بھائی ہے، خواہ اس کا ہم وطن ہو یا نہ ہو، ہم نسل ہو یا نہ ہو، ہم عقیدہ ہو یا نہ ہو، اور امتیاز و تفریق کی وہ تمام باتیں جو اس انسانی بھائی چارگی کا رشتہ قطع کرتی ہیں خدا کی طرف سے نہیں ہیں خود انسانوں کی گھڑی ہوئی معصیت اور گمراہی ہے۔ پیغمبر اسلام کی دعاؤں میں سب سے زیادہ اعتراف اسی حقیقت کا ہوتا تھا کہ (انی اشھد ان العباد کلھم اخوۃ) (مسلم) خدایا ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لیکن جب تمام ملک و قوم نے اس دعوت کو بزور شمشیر نابود کردینے کا فیصلہ کردیا اور پیروان دعوت پر محض اختلاف عقائد کی بنا پر ظلم و ستم کرنے لگے تو قدرتی طور پر جنگ کی حالت پیدا ہوگئی۔ اب دو فریق ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے، ایک فریق مسلمانوں کا تھا جو اپنا بچاؤ کر رہا تھا۔ دوسرا دشمنوں کا تھا جو حملہ آور تھا، پس ایسی حالت میں ناگزیر ہوگیا کہ دوستوں اور دشمنوں میں صاف صاف امتیاز ہوجائے۔ جو دوست ہیں وہ دشمنوں کے کیمپ سے کسی طرح تعلق نہ رکھیں، جو دشمن ہیں وہ دوستوں سے کسی طرح کی سازش نہ کرسکیں۔ قرآن میں جس قدر احکام عدم موالات کے ہیں وہ سب اسی صورت حال سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سورت کی آیت (٢٣) بھی اسی سے متعلق ہے۔ اصل اس باب میں سورۃ ممتحنہ کی یہ آیات ہیں جو ایک ایسے ہی معاملہ کی نسبت نازل ہوئی تھیں : (لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین۔ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم و ظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم ومن یتولھم فاولئک ھم الظالمون۔ ) خدا تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ ان مشرکوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انصاف کے ساتھ پیش آؤ جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھر والوں سے نہیں نکالا۔ خدا تو تمہیں صرف ان لوگوں کی رفاقت و ساز گاری سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی ہے (یعنی محض اس لیے کہ تم نے ان کا دین چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کرلیا ہے تم پر حملہ کردیا ہے) اور (ظلم و ستم کر کے) تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔ نیز تمہیں جلا وطن کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے، پس جو کوئی ایسے لوگوں سے رفاقت و سازگاری رکھے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوگیا کہ قرآن میں جہاں کہیں مسلمانوں کو مشرکین عرب یا یہود و نصاری کی موالات سے روکا گیا ہے تو اس سے مقصود صرف وہی جماعتیں تھیں جنہوں نے مسلمانوں سے محض اختلاف دین کی بنا پر قتال کیا تھا اور جن کے ظلم و ستم نے مسلمانوں کو ترک وطن پر مجبور کردیا تھا۔ یہ بات نہ تھی کہ تمام مشرکین عرب سے یا یہود و نصاری سے ترک علائق کا حکم دے د یا گیا ہو اور ظاہر ہے کہ قرآن کا یہ حکم کیونکر ہوسکتا ہے جب کہ اس کی دعوت سر تا سر انسانی اخوت و مساوات کی دعوت اور عموم شفقت و احسان کا عالمگیر پیام ہے۔ سورۃ توبہ ایک آخری اور و داعی پیام تھا : (ن) اس سورت کے تمام مطالب اپنی اصلی حیثیت میں اس وقت تک واضح نہیں ہوسکتے جب تک یہ حقیقت پیش نظر نہ ہو کہ یہ تمام تر امت کے نام ایک وداعی پیام تھا اور احکام و مواعظ سے اصل مقصود مستقبل کے پیش آنے والے معاملات تھے نہ کہ موجودہ، مفسرین کی نظر چونکہ اس پہلو پر نہیں گئی اس لیے انہیں اکثر مقامات کی شرح و توجیہ میں دقتیں پیش آئیں۔ یہ اصل پیش نظر رکھ کر سورت کے تمام مواعظ و احکام پر دوبارہ نظر ڈالو، صاف واضح ہوجائے گا کہ آئندہ مرحلوں کے لیے مخاطبین کو تیار کیا جارہا ہے۔ مزید تفصیل کا یہ محل نہیں۔