سورة التوبہ - آیت 113

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں (١)۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

استغفار للمشرکین کی ممانعت : اس عہد کے مسلمانوں نے کلمہ حق کے رشتے پر دنیا کے سارے رشتے قربان کردیے تھے، انہیں اپنے ان عزیزوں اور رشتہ داروں سے لڑنے میں ایک لمحہ کے لیے بھی تامل نہیں ہوا جنہوں نے اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی تھی اور اس وقت حالت ہی ایسی ہوگئی تھی کہ کلمہ حق کا ساتھ دینا دنیا کے تمام رشتوں، علاقوں کو خیر باد کہہ دینا تھا۔ لیکن اسلام کے جو دشمن لڑتے ہوئے قتل ہوگئے یا اپنی موت مرگئے ان کی حالت زندوں سے مختلف ہوگئی تھی، کیونکہ اب وہ زندہ نہ تھے کہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے یا ان کے خلاف لڑتے، بعضض لوگوں کو خیال ہوا جب اللہ کے رسول کی دعا مقبول ہے تو کیوں نہ ہم اپنے ان عزیزوں کے لیے دعائے مغفرت کی التجا کریں جو مرچکے ہیں؟ اور خود قرآن میں حضرت ابراہیم کی نسبت نازل ہوچکا ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی تھی حالانکہ وہ مومنوں کا مخالف تھا : (واغفرلی لابی انہ کا من الضالین) آیت (١١٣) میں اسی معاملہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا نہ تو پیغمبر کو سزاوار ہے کہ ایسا کرے اور نہ مومنوں کو اگرچہ وہ ان کے عزیز و اقارب ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ جب ان پر یہ بات روشن ہوگئی کہ دوزخی ہیں تو پھر انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ اللہ کے فیسلہ کے خلاف زبان کھولنے کی جسارت کریں۔ ان پر یہ بات روشن کس طرح ہوئی تھی؟ اللہ کی وحی سے اگر تعیین کے ساتھ کسی کی نسب نازل ہوچکی ہو یا ان کے ان اعمال سے جن پر ان کی زندگیوں کا خاتمہ ہوا، یہ ظاہر ہے کہ وہ بیس برس تک داعی حق اور دعوت حق کے جانی دشمن رہے وار کفر وجحود اور ظلم وطغیان کی کوئی شرارت ایسی نہیں جو انسان کرسکتا ہو اور انہوں نے نہ کی ہو، پھر ان کی زندگی کا خاتمہ ببھی اسی عالم میں ہوا اور اپنے اعمال بد پر ایک لمحہ کے لیے شرمندہ نہ ہوئے۔ جن لوگوں کی حالت ایسی رہ چکی ہو ان کے دوزخی ہونے سے زیادہ اور کون سی بات روشن ہوسکتی ہے؟ اس کے بعد اس شبہ کا ازالہ کردیا جو بعض طبیعتوں کو ہوا تھا، فرمایا حضرت ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعائیں کی تھیں تو صرف اس لیے کہ جب تک آدمی زندہ رہتا ہے اس کی ہدایت و اصلاح سے قطعی مایوسی نہیں ہوسکتی، اگرچہ کتنا ہی گمراہی و شقاوت میں ڈوبا ہوا ہو۔ کیونکہ ہوکتا ہے مرنے سے پہلے باز آجائے۔ چنانچہ جب تک انن کا باپ زندہ رہا وہ مایوس نہ ہوئے اور برابر دعائیں مانگتے رہے، یہ بات انہوں نے اپنے باپ سے کہہ دی تھی جب اس سے الگ ہوئے تھے اور وہ اپنی بات کے پکے تھے لیکن جب وہ کفر و جحود کی حالت میں مرگیا تو انن پر واضح ہوگیا کہ وہ اپنی روش سے باز آنے والا نہ تھا۔ پس اپنی اس طلب سے دست بردار ہوگئے۔ چنانچہ قرآن نے سورۃ مریم اور ممتحنہ میں ان کے اس وعدہ کا ذکر کیا ہے، مریم میں ہے کہ جب ان کے باپ نے غصہ میں آکر انہیں نکال دیا اور کہا اگر تو اپنی روش سے باز نہ آیا تو سنگ سار کروں گا، تو انہوں نے کہا : (سلام علیک، ساستغفرلک ربی انہ کان بی حفیا) اچھا میں جاتا ہوں، تجھ پر سلامتی ہو، اب میں اپنے پروردگار سے تیرے لیے بخشش کی دعا کروں گا۔ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے، اور ممتحنہ میں ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے خاندان سے تمام تعلقات قطع کردیے تھے مگر صرف اتنا واسطہ اپنے باپ سے رکھا کہ (لاستغفرن لک وما املک لک من اللہ شیء) میں ضرور تیری بخشش کا طلبگار ہوں گا، اس سے زیادہ تیرے لیے میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ اور خود پیغمبر اسلام کا بھی یہی ححال رہا کہ دشمنان حق کے لیے ان کی زندگی میں برابر طلبگار بخشش رہے کہ ابھی امید منقطع نہیں ہوئی تھی۔ جنگ احد میں جب ان کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا تھا تو زبان مقدس پر یہی دعا طاری تھی کہ (رب اغفرلی قومی فانھم لا یعلمون) خدایا ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ جانتے نہیں کہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ قرآن نے حضرت ابراہیم کی یہ بات ان کے مناقب و فضائل میں شمار کی ہے اور جابجا بطور نمونہ کے پیش کی ہے کیونکہ کتنے ہی ناموافق حالات ہوں مگر ہدایت سے مایوس نہ ہونا اور اپنے ماں باپ کے لیے ہر حال میں خیر طلب رہنا جن کی محبت و شفقت انسان کی پرورش کا ذریعہ ہوتی ہے ایمان و راستی کے بہرین اعمال میں سے ہے۔ چنانچہ سورۃ مریم میں جہاں ان کی وہ مقبول دعائیں نقل کی ہیں جو امت مسلمہ کے ظہور اور خانہ کعبہ کی آبادی کے لیے تھیں وہاں یہ دعا بھی نقل کی ہے : (ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین) خدایا مجھے بخش دے اور میرے باپ کو بھی اور ان کو جو ایمان لائے۔ یہاں باپ سے مقصود ان کا حقیقی باپ ہے یا چچا جس نے بطور باپ کے پرورش کیا تھا؟ تو زیادہ قوی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ آزر ان کا چچا تھا، اور یہ معاملہ اسی کے ساتھ پیش آیا تھا۔ چنانچہ سورۃ انعام آیت (٧٤) کے حاشیہ میں اس طرف اشارہ گزر چکا ہے۔