سورة التوبہ - آیت 100

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں (١) اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے (٢) یہ بڑی کامیابی ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (١٠٠) سے معلوم ہوا اس امت کے بہترین طبقے تین ہیں : (ا) مہاجرینن میں سے سابقون الاولون یعنی مکہ کے وہ حق پرست جنہوں نے دعوت حق کی قبولیت میں سبقت کی اور سب سے پہلے ایمان لائے۔ پھر صلح حدیبیہ سے پہلے کہ غربت و مصیبت کا زمانہ تھا اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی۔ بالاتفاق سب سے پہلے ایمان لانے والی ہستی حضرت خدیجہ کی تھی۔ ان کے بعد گھر کے آدمیوں میں سے حضرت علی، (ک دس برس سے زیادہ عمر کے نہ تھے) اور زید بن حارثہ ایمان لائے اور باہر کے آدمیوں میں حضرت ابوبکر، حضرت ابوبکر ہجرت مدینہ میں بھی اسبق ہیں کہ خود آنحضرت کے ساتھی تھی۔ (ب) انصار میں سے سابقون الاولون یعنی مدینہ کے وہ حق شناس جنہوں نے عین اس وقت جبکہ تمام جزیر عرب داعی حق کو جھٹلا رہا تھا اور خود اس کے اہل ون اس کے قتل و ہلاکت کے درپے تھے دعوت حق قبول کی اور عقبہ اولی اور ثانیہ میں بیعت کا ہاتھ بڑھایا۔ پہلی بیعت میں سات آدمی تھی، اور یہ اعلان نبوت سے گیارہویں برس ہوئی۔ دوسری میں ستر مرد تھے اور دو عورتیں اور یہ پہلی سے ایک برس بعد ہوئی۔ پیغمبر اسلام نے دوسری بیعت والوں کے ساتھ ابو زرارہ بن مصعب کو بغرض تعلیم بھیج دیا تھا۔ کچھ لوگ ان کے جانے پر ایمان لائے اور کچھ اس وقت جب خود آنحضرت نے ہجرت فرمائی۔ (ج) وہ لوگ جو ان دونوں جماعتوں کے قدم بہ قدم چلے اور گو بعد کو آئے لیکن ان کا شمار پہلوں ہی کے ساتھ ہوا۔ چونکہ بعد کو ایمان لانے والوں میں بعض منافق اور کچے دل کے آدمی بھی تھے اس لیے باحسان کی قید لگا دی۔ یعنی وہ جنہوں نے راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کی۔ دنیا میں جب کبھی سچائی کا ظہور ہوا ہے تو اس کا پہلا عہد ہمیشہ غربت و بے کسی کا رہا ہے اور ان ساری دنیوی ترغیبوں سے خالی رہا ہے جو کسی انسان کے دل کو مائل کرسکتی ہے۔ پس جو نفوس قدسی اس وقت حق کا ساتھ دیتے ہیں ان کی حق شناسی و حق پرستی کے درجہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا کیونکہ وہ داعی حق کا پہلے پہل ساتھ دے کر خود بھی داعیان حق کے گروہ میں داخل ہوجاتے ہیں اور ان کی حق پرستی دنیا کے ہر طرح کے تاثرات سے یک قلم منزہ ہوتی ہے۔ تاریخ اسلام میں مہاجرین و انصار کی جماعت کا یہی مقام ہے۔ اسی لیے (السابقون الاولون) سے زیادہ ان کے وصف میں کچھ کہنا ضروری نہ ہوا۔ کیونکہ یہاں اسبقیت و اولیت سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ جب پیغمبر اسلام نے پہلے پہل حضرت ابوبکر کو دعوت دی اور اس پیکر صدق و وفا نے سنتے ہی قبول کرلی تو غور کرو اس وقت اس معاملہ کا کیا حال تھا؟ پورے کرہ ارض میں تن تنہا دو آدمی کھڑے تھے، ایک نے بلایا تھا، دوسرا دوڑ گیا تھا، جس نے بلایا اس کے اندر وحی الہی کا یقین بول رہا تھا، لیکن جو دوڑا اس نے کیا دیکھا تھا کہ ایک عجیب و غریب بات سنتے ہی قبول کرلی اور بیٹھے بٹھائے تمام ملک و قوم کو اپنا دشمن جانی بنا لیاَ ؟ یاراں خبر دہید کہ ایں جلوہ گاہ کیست؟؟؟ اسی غور کرو جب عقبہ اولی میں مدینہ کے ساتھھ آدمی بیعت کر رہے تھے؟ تو کس سے کر رہے تھے اور کس حال میں کر رہے تھے؟ جس مظلوم کو گیارہ برس سے تمام جزیرہ عرب جھٹلا رہا تھا اور خود اپنی قوم و وطن دشمنوں سے گھرا ہوا تھا اس نے کہا مجھے قبول کرلو اور ساری دنیا کی دشمنی مول لے لو، اور ان عشاق حق نے کہا ہم نے قبول کیا اور تیرے لیے سارے جہان کی دشمنیاں اور ہر طرح کی مصیبتیں اپنے سر لے لیں۔ دو عالم نقد جاں بر دست دارند۔۔۔ بہ بازارے کہ سودائے تو باشد !!! یہی وجہ ہے کہ یہاں ان کا معاملہ ایسے پیرایہ میں بیان فرمایا جس سے بڑھ کر پیرایہ بیانن عشاق حق کے لیے نہیں ہوسکتا۔ (رض) و رضوا عنہ۔ اللہ سن سے خوشنود ہوا، وہ اللہ سے خوشنود ہوئے۔ اور سورۃ مائدہ میں انہی کے لیے پیشین گوئی گزر چکی ہے۔ (یحبھم ویحبونہ) اللہ ان سے محبت کرے گا وہ اللہ سے محبت کریں گے۔ اللہ کی خوشنودی تو ظاہر ہے کہ ان کے کمال ایمان و عمل کا نتیجہ تھی لیکن خود ان کے خوشنود ہونے کا یہاں مطلب ہوا؟ افسوس ہے کہ لوگ اس کی حقیقت نہیں سمجھتے اور اگرچہ یہاں سمجھانے کی گنجائش نہیں مگر پھر بھی کوشش کروں گا کہ سورت کے آخری نوٹ میں اس کی تشریح بھی آجائے۔