مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ
لائق نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ درآں حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں (١) ان کے اعمال غارت و اکارت ہیں اور وہ دائمی طور پر جہنمی ہیں (٢)۔
آیت (١٧) سے سلسلہ بیان ایک دوسرے معاملہ کی طرف متوجہ ہوا جس کا اس موقع پر اعلان کیا گیا تھا اور جو فی الحقیقت اس صورت حال کا لازمی نتیجہ تھا، یعنی خانہ کعبہ کی مستقل حیثیت۔ فرمایا یہ پرستار ان توحید کی عبادت گاہ تھی اور اب آئندہ بھی انہی کے لیے مخصوص رہے گی۔ مشرکوں کو یہ حق ن نہیں کہ اسے اپنے مشرکانہ اعمال اور رسول سے ملوث کریں۔ چنانچہ اوپر گزر چکا ہے کہ ٩ ہجری کے حج میں حضرت علی نے جن امور کا اعلان عام کیا ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک خانہ کعبہ میں قدم نہ رکھ سکے گا۔ اور اسی حکم کی یہ تمہید ہے جو آیت مذکور سے شروع ہوئی ہے۔ قریش مکہ کو خانہ کعبہ کی مجاوری اور حاجیوں کے کاروبار کے منصرم ہونے کا بڑا غرور تھا۔ اور جب ایک جماعت اعتقاد و عمل کی حقیقت سے محروم ہوجاتی ہے تو اسی طرح کے رسوم و مظاہر کو ہر طرح کی بزرگی و سعادت کا ذریعہ سمجھنے لگتی ہے۔ چنانچہ آج کل مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ کسی بزرگ کی سجادہ نشینی، کسی مزار کی مجاوری، کسی زیارت گاہ کا متولی ہونا جو اثر و رسوخ رکھتا ہے وہ بڑے سے بڑے اور بتہر سے بہتر مومن و متقی کو بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ ایک صالح و متقی مسلمان کو کوئی نہیں پوچھے گا، لیکن ایک فاسق و فاجر مجاور یا متولی درگارہ کی ہزاروں آدمی قدم بوسی کریں گے یہاں اسی گمراہی کا ازالہ کیا ہے۔ فرمایا اصلی نیکی یہ نہیں ہے کہ حاجیوں کو پانی پلانے کی سبیل لگا دی یا خانہ کعبہ میں روشنی کردی۔ اصل نیکی تو اس کی ہے جو ایمان لایا اور جس نے اعمال حسنہ انجام دیے۔ نیز یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ خدا کی عبادت گاہ کی تولیت کا حق متقی مسلمانوں کو پہنچتا ہے اور وہی اسے آباد رکھنے والے ہوسکتے ہیں۔ یہاں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ فاسق و فاجر آدمی مساجد کا متولی نہیں ہوسکتا، کیونکہ دونوں میں کوئی مناسبت باقی نہیں رہتی بلکہ متضاد باتیں جمع ہوجاتی ہیں۔ مسجد خدا پرستی کا مقام ہے اور متولی خدا پرستی سے نفور۔