الَّذِينَ عَاهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ
جن سے تم نے عہد پیمان کرلیا پھر بھی وہ اپنے عہد و پیمان کو ہر مرتبہ توڑ دیتے ہیں اور بالکل پرہیز نہیں کرتے (١)
آیت (٥٦) میں مدینہ کے یہودیوں کی طرف اشارہ کیا ہے، جب پیغمبر اسلام مدینہ آئے تو یہاں یہودیوں کی تین بستیاں آباد تھیں، بنی قینقاع، بنی نضیر، بنی قریظہ۔ پیغمبر اس نے ان سب سے سلح و امن اور باہم دگر اعانت کا معاہدہ کیا۔ معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ تمام جماعتیں ایک قوم بن کر رہیں گی، اور اگر کسی فریق پر اس کے دشمن حملہ کریں گے تو سب اس کی مدد کریں گے (ابن ہشام) لیکن ابھی معاہدہ کی سیاسی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ یہودیوں نے خلاف ورزی شروع کردی اور قریش مکہ سے ملکر مسلمانوں کی تباہی کی سازشیں کرنے لگے۔ حتی کہ خود پیغمبر اسلام کو ہلاک کرنے کی تدبیروں میں لگ گئے۔ یہاں حکم دیا ہے کہ اب ایسے دغا باز لووں کے ساتھ نباہ نہیں ہوسکتا۔ جو کھلم کھلا لڑیں ان کا مقابلہ کرو، جو ایسا نہ کریں اور غدر و فریب کا ان سے اندیشہ ہو تو انہیں کھلے طور پر خبر دے دو کہ اب معاہدہ فسخ ہوگیا۔ لیکن فرمایا یہ بات اس طرح کی جائے کہ دوسرے فریق کو نقصان نہ پہنچے، یعنی وقت سے پہلے فسخ معاہدہ سے خبردار ہوجائے اور اگر تیاری کرنی چاہے تو ہماری طرح اسے بھی تیاری کا پورا موقع ملے۔ یہاں سے اندازہ کرو کہ قرآن نے ہر معاملہ میں حتی کہ جنگ میں بھی سچائی اور دیانت کا جو معیار قائم کیا ہے وہ کس قدر بلند ہے؟ کہیں بھی اس نے کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جہاں اخلاقی کمزوری کو ابھرنے کا موقع دیا گیا ہو۔ کیا دنیا میں اس وقت تک کسی قوم نے احکام جنگ کو اس درجہ بلند اخلاقی معیار پر رکھا ہے؟ عالمگیر جنگ یورپ کی تاریخ کا ہر صفحہ اس کے جواب میں نہیں کہے گا۔