سورة الانفال - آیت 30

وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اس واقعہ کا بھی ذکر کیجئے! جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں، یا آپ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج وطن کردیں (١) اور وہ تو اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے (٢)۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٣٠) پر غور کرو، انسان اپنے جہل و غفلت کی سرشاریوں میں کیا سوچتا ہے اور حکمت الہی کی مخفی تدبیروں کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟ جب ہجرت سے پہلے قریش مکہ نے یہ منصوبے باندھے تھے تو کیا ایک لمحہ کے لیے انہیں آنے والے نتائج کا گمان ہوسکتا تھا؟ مگر کس طرح خود انہی کے ظلم و عداوت نے ان کا سارا سروسامان کردیا؟ اگر ظلم نہ ہوتا تو ہجرت بھی نہ ہوتی اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو وہ تمام نتائج بھی ظہور میں نہ آتے جو ہجرت سے ظہور آئے۔ ایسی ہی صورت حال قانون الہی کی مخفی تدبیر ہے جو انسانی ظلم و فساد کی ساری تدبیریں ملیا میٹ کردیتی ہے۔