يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
یہ لوگ آپ سے قیامت (١) کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا (٢) آپ فرما دیجئے اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے (٣) اس کے وقت پر اس کو سوائے اللہ کے کوئی ظاہر نہ کرے گا وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادثہ) ہوگا (٤) وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی۔ وہ آپ اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں (٥) آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
مشرکین مکہ انکار و تمسخر کی راہ سے پوچھتے تھے اگر سچ مچ کو قیامت آنے والی ہے تو کیوں نہیں بتلا دیتے کہ آئے گی؟ فرمایا وقت کا علم تو اللہ کو ہے۔ تمہارے لیے اس قدر جان لینا کافی ہے کہ جب آئے گی تو اچانک آجائے گی۔ ڈھنڈورا پیٹ کر نہیں آئے گی۔ ثقلت فی السموات والارض سے معلوم ہوا وہ اجرام سماویہ کا ایک عظیم حادثہ ہوگا۔ اس آیت اور اس کی ہم معنی آیات سے یہ بات بھی معلوم ہوگئ کہ قیامت کے آثار و مقدمات کے بارے میں جتنی باتیں مسلمانوں میں مشہور ہوگئی ہیں ان کا بڑا حصہ بے اصل ہے۔ کیونکہ اگر ایک واقعہ سے بہت پہلے اس کی ظاہر علامتیں یکے بعد دیگرے ظہور میں آنے والی ہوں اور ان کی خبر بھی دے دی گئی ہو تو اس واقعہ کا ہونا ناگہانی نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ قرآن قطعی طور پر کہتا ہے کہ لوگ یکسر بے خبر ہوں گے اور قیامت اچانک نمودار ہوجائے گی۔