سورة الاعراف - آیت 157

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (١) وہ ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں (٢) اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے (٣) ان کو دور کرتے ہیں۔ سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں (١)

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(ل) عربی میں امی ایسے آدمی کو کہتے ہیں جو اپنی پیدائشی حالت پر ہو۔ لکھنے پڑحنے اور علم و فن کی باتوں سے آشنا ہوا۔ چنانچہ عرب کے باشندے بھی امی کہلائے، کیونکہ تعلیم و تربیت سے آشنا نہیں ہوئے تھے۔ پیغمبر اسلام کو بھی الامی فرمایا کیونکہ ظاہری تعلیم و تربیت کا ان پر سایہ بھی نہیں پڑا تھا، جو کچھ تھا سرچشمہ وحی کا فیضان تھا۔ (م) چونکہ تورات کی بشارت میں پیغمبر موعود کے ساتھ اس وصف کی طرف اشارہ تھا اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا۔ بشارات ظہور کے لیے استثنا۔ ١٧: ١٨۔ ٢١: ٣٢۔ ٢: ٣٣۔ اور زبور ١: ٤٥۔ اور انجیل متی ١: ٢٠۔ یوحنا ٢١: ١۔ ١٥: ١٤۔ کے مقامات دیکھنے چاہیے۔