وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ۚ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور یہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو اور قیامت کے پیش آنے کو جھٹلایا ان کے سب کام غارت گئے۔ ان کو وہی سزا دی جائے گی جو کچھ یہ کرتے تھے (١)۔
(ہ) آیت (١٤٧) کے آخری حصے نے کسی قطعی لفظوں میں سزا و عقوبت کی حقیقت واضح کردی ہے؟ جو کچھ بدلہ پایا وہ اس کے سوا کیا تھا کہ انہی کے کرتوتوں کا پھل تھا۔ (د) بنی اسرائیل مصر کی بت پرستی سے اس درجہ مالوف ہوچکے تھے کہ رہ رہ کر انہیں اس کا شوق ہوتا۔ جونہی حضرت موسیٰ چالیس دن کے لیے الگ ہوئے انہوں نے گائے کے بچھڑے کی طلائی مورتی بنا کر اس کی پوجا شروع کردی۔ تورات میں ہے کہ یہ مورتی حضرت ہارون (علیہ السلام) نے بنائی تھی۔ (خروج ٣٢: ٣١) لیکن قرآن نے دوسری جگہ واضح کردیا ہے کہ یہ سامری نامی ایک شخص کی کارستانی تھی اور حضرت ہارون کا دامن اس دھبہ سے پاک ہے۔ (٩: ٢٠) عجائب پرستوں کا قاعدہ ہے کہ جہاں کوئی ذرا سی بات عجیب نظر آئی فورا معتقد ہوگئے اور سمجھ بوجھ کو خیر باد کہہ دیا۔ سامری مصر کے مندروں کے بھیدوں سے واقف تھا، وہاں اس ترکیب سے مورتیاں بنائی جاتی تھیں کہ جونہی ہوا ان کے اندر جاتی طرح طرح کی آوازیں نکالنے لگتیں َ آج کل یہ صنعت باجوں اور کھلونوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس زمانہ میں معبدوں کا معجزہ تھا، چنانچہ اس نے بچھڑے کی مورتی میں بھی یہی کاریگری رکھی۔ بنی اسرائیل اتنی ہی بات دیکھ کر معتقد ہوگئے۔ آیت (١٤٨) کا مطلب یہ ہے کہ ان عقل کے اندھوں نے اتنی موٹٰ بات بھی نہ سمجھی کہ ایک ہی طرح کی آواز کیوں نکلتی ہے؟ آدمی کی بات کا جواب کیوں نہیں دیتا؟ ہندوستان کی طرح بابل اور مصر میں بھی بیل اور گائے کی عظمت کا تصور پیدا ہوگیا تھا۔ اگر کالڈیا کے تمند کی قدامت تسلی کرلی جائے تو وہیں سے یہ خیال دوسرے ملکوں میں پھیلا ہوگا۔ (ز) حضرت موسیٰ کا قوم کے سرکش سرداروں میں سے ستر آدمیوں کو فیصلہ کے لیے چننا اور لرزا دینے والی ہولناکی کا ظہور۔ تورات میں ہے کہ سرداروں کی ایک جماعت نے حضرت موسیٰ کی بزرگی و پیشوائی سے انکار کیا تھا۔ اس پر حکم الہی سے ایک وقت مقرر کیا گیا اور سرکش گروہ جمع ہوا۔ اس وقت زلزلہ آیا، زمین پھٹی اور سب اس میں مدفون ہوگئے۔ (گنتی ٣١: ١٦)