سورة الاعراف - آیت 97

أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آ پڑے جس وقت وہ سوتے ہوں۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(١) منکر و سرکش جماعتوں کی ہلات کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں وہ سب اس نوعیت کے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قدرتی حوادث کا ظہور تھا، مثلا زلزلہ، طوفان، سیلاب، آتش فشانی، پھر انہیں مقررہ عذاب کیوں کہا گیا؟ اس لیے کہ گو ان کا ظہور قدرت کی عادی و جاری صورتوں ہی میں ہوا تھا، لیکن اس لیے ہوا تھا کہ انکار و سرکشی کے نتائج لوگوں کے سامنے آجائیں اور پیغمبروں نے ان کے ظہور کی پہلے سے خبر دے دی تھی، ضروری نہیں کہ ہر زلزلہ کسی گروہ کے لیے عذاب ہو لیکن ہر وہ زلزلہ عذاب تھا جس کی کسی پیغمبر نے اتمام حجت کے بعد خبر دے دی تھی اور جسے مشیت الہی نے اس معاملہ سے وابستہ کردیا تھا۔ خدا نے فطرت کے تمام مظاہر کے لیے ایک خاص بھیس مقرر کردیا ہے۔ وہ جب کبھی آئے گی تو اسی بھیس میں آئے گی۔ اس کا بھیس بدل نہیں سکتا لیکن اس کے ظہور کے مقاصد ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے، اور حقیقت حال انسانی علم کی دسترس سے باہر ہے۔