سورة الاعراف - آیت 22

فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

سو ان دونوں کو فریب کے نیچے لے (١) آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے (٢) اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے (٣)،

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

احساس عریانی : (ف ٢) معلوم ہوتا ہے جنت میں آدم اور حوا کی زندگی نہایت پاکیزہ اور معصومانہ تھی ، وہ جنسی جذبات سے ناآشنا تھے ، حجاب و ستر کے مفہوم سے بالا تھے ، جب شیطان نے دھوکہ دیا ، اور انہوں نے خلود و ملکیت کے فریب میں آکر شجرہ ممنوعہ کو استعمال کرلیا ، تو ننگے ہوگئے ، عریانی کا احساس ہونے لگا اور جنت کے پتوں سے ستر ڈھانکنے لگے ۔ بات یہ ہے کہ انسانی نفسیات میں یہ ہمہ گیر کمزوری ہے کہ جس بات سے روکا جائے اس کے متعلق خواہ مخواہ دل میں تحریص پیدا ہوتی ہے اور دل میں یہ سوال چٹکیاں لیتا ہے کہ آخر اس میں کیا حکمت ہے ، شیطان نے انسان کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور یہ کہہ کر بہکایا کہ ہو نہ ہو اس میں راز یہ ہے کہ کہیں تم بھی موت و فنا کے قاعدوں سے مستثنی نہ ہوجاؤ۔