سورة الانعام - آیت 159

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروہ گروہ بن گئے (١) آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلا دیں گے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فرقہ بندی منظور نہیں !: (ف ٣) انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ وہ آئیں اور خدا کے مقدس نام پر سب کو جمع کر جائیں اس لئے طبعا انہیں گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوجانا پسند نہیں ، وہ یہ چاہتے ہیں کہ تمام لوگ توحید کے مضبوط رشتہ کو عملا تھام لیں ، سب ایک ہوجائیں ، ان کی ذاتی مصلحتیں اور ذاتی مفاد فنا ہوجائیں تمام کائنات انسانی ایک وحدت ایک نظام اور ایک رنگ میں نظر آئے سب خدا کے پرستار ہوں ، سب کا مقصد اللہ کے دین کی پیروی اور فرمانبرداری ہو ، کوئی اختلاف اور کوئی امتیاز باقی نہ رہے ، اس آیت کا یہی مقصد ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرقہ بندوں سے کچھ تعلق نہیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نسل انسانی کو ایک مرکز توحید پر اکٹھا کرنے کے لئے تشریف لائے ہیں مگر تعجب یہ ہے کہ آج حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی ذات مختلف گروہوں اور جماعتوں میں منقسم ہے ۔ حل لغات : یصدفون : شدید اعراض کو صدف کہتے ہیں ، غالبا صدف ” بعیر سے مستفاد ہے جس کے معنی اونٹ کی ایک ٹانگ کے ٹیڑھا ہوجانے کے ہیں ۔ بہاؤ کے پہلو کو صدف الجبل سے تعبیر کرتے ہیں ، بہرحال شدت اعراض یا سخت کجروی کے معنی ہیں ۔