سورة البقرة - آیت 84

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا کہ آپس میں خون نہ بہانا (قتل نہ کرنا) اور آپس والوں کو جلاوطن مت کرنا، تم نے اقرار کیا اور تم اس کے شاہد بنے (٢

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف2) ﴿ دِمَاءَكُمْ﴾ اور﴿ أَنْفُسَكُمْ﴾کے معنی یہ ہیں کہ سارے بنی اسرائیل ایک قوم اور ایک جسم ہیں ، ان سب میں انبیاء کا خون موجزن ہے ، اس لئے ان کا آپس میں جنگ وجدل میں مصروف رہنا وحدت قومی کو شدید نقصان پہنچاتا ہے ، نیز اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی قوم اس وقت تک قوم کہلانے کی مستحق نہیں ہوسکتی جب تک وہ قومی حرمت واعزاز کو محسوس نہ کرے ، مذہب کا مقصد جہاں نسلی اور قبائلی نقیضات کو ختم کرتا ہے ، وہاں ایک مضبوط اور غیور اور باحمیت قوم کی تخلیق وتعمیر بھی ہے ، تاکہ وہ خدا کے مشن کو دلیرانہ پورا کرسکے ، وہ لوگ جو قوم کے رشتہ قومیت کو توڑتے ہیں ، وہ قوم کے مجرم ہیں اور خدا کے بھی ، اس لئے بنی اسرائیل کو لڑائی جھگڑے سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے کہ اس سے زیادہ قومی وقار کو ختم کردینے والی اور کوئی چیز نہیں ۔ اسلام نے قتل مومن کی سزا نہایت سنگین رکھی ہے ، ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ﴾ کیونکہ قتل مومن کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل میں اسلام کا کوئی وقار نہیں مسلمانوں کی محبت نہیں وہ نفس خدا اور قوم کے سامنے غدار وخائن کی حییثت رکھتا ہے اس کا جرم قطعا ناقابل معافی ہے اور اسی لئے ناقابل عفو بھی ۔ حل لغات : تَشْهَدُونَ: شھادۃ سے نکلا ہے معنی ہیں تم دیکھتے ہو ، گواہ ہو ۔