سورة الانعام - آیت 119

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور آخر کیا وجہ ہے کہ تم ایسے جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتا دی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے (١) مگر وہ بھی جب تمہیں سخت ضرورت پڑجائے تو حلال ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ بہت سے آدمی اپنے خیالات پر بلا کسی سند کے گمراہ کرتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو خوب جانتا ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) ایک اعتراض ذبیحہ پر یہ تھا کہ مسلمان خود مار کر کھا لیتے ہیں اور خدا کا مارا ہوا جانور نہیں کھاتے اس کی کیا وجہ ہے َ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ذبح کرنےمیں یہ راز مضمر ہے کہ اس سے توحید کا اعلان ہوتا ہے ، اللہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے ، اور مسلمان کو یہ انتباہ ہوتا ہے ، کہ کسی وقت اللہ کو فراموش نہ کرے ، ﴿إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ﴾سے غرض یہ ہے کہ اگر کھانے کو کچھ نہ ملے اور زندگی خطرے میں ہو تو حرام بھی کھالے ، زندگی بہرحال زیادہ عزیز ہے ، اور اصل میں حلت وحرمت کی بحث محض بقاء حیات کے لئے ہے۔ وہ چیزیں جو حیات انسان کے لئے مفید ہیں ، شریعت نے ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں رکھی اور وہ جو مضر ہیں ، انہیں حرام قرار دیا ہے ، حل لغات : اضْطُرِرْتُمْ: اضطرار کے معنی ہیں ‘ بےاختیاری ، اور بیچارہ ہونے اور بیچارہ کرنے کے ۔