وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں۔ (١)
اکثریت کی رائے : (ف2) مقصد یہ ہے کہ ساری دنیائے کفر اسلام کی صداقت کو جھوٹ سے نہیں بدل سکتی ، صداقت کے لئے اکثریت شرط نہیں سچائی سچائی ہے ، اگرچہ ایک عالم اس کا مخالف ہو ، مکہ والوں کو ذبیحہ کے متعلق کچھ شبہات تھے ، وہ کہتے تھے اسلام میں ذبیحہ کا اصول عام دنیا سے مختلف ہے اس لئے ناقابل قبول ہے قرآن حکیم کہتا ہے یہی درست ہے ، اکثریت کی پیروی گمراہی ہے ۔ ﴿إِنْ تُطِعْ﴾ اور﴿ يُضِلُّوكَ﴾کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حضور (ﷺ) کے لئے عوام کی پیروی کا امکان ہے بلکہ قرآن کا یہ عام انداز بیان ہے کہ وہ حضور (ﷺ) کو مخاطب کرتا ہے اور مراد آپ کے ماننے والے ہوتے ہیں ، ورنہ آپ کے لئے ضلالت کا امکان کہاں ، ﴿مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى﴾ کی نص موجود ہے ۔ حل لغات : يَخْرُصُونَ: مادہ خرص ، اندازہ وتخمینہ سے کچھ کہنا ، مقصد یہ ہے کہ مشرکین مکہ کے پاس ضابطہ وقانون نہیں ہے جسے عقل کی کسوٹی پر پرکھا جا سکے محض اوہام ، روایات ہیں جو تخمینہ واندازہ پر مبنی ہیں ۔