وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے و عدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اسی طرح قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا، نمازیں قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہا کرنا، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھر گئے اور منہ موڑ لیا۔
(ف1) خدا کی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک اور سب اقرباء ومستحقین کے ساتھ مشفقانہ تعلقات کو اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ مذہب کی تکمیل بلا اس طرز کے ناممکن ہے ، وہ انسان جو خدا پرست ہے ، لازمی ہے کہ کائنات کے ساتھ اس کا نہایت گہرا اور محبانہ تعلق ہو ۔ بالخصوص والدین اور عزیز جو قریبی رشتہ ، الفت وشفقت رکھتے ہیں ضرور ہماری توجہ کے مستحق ہیں ، اور یاد رکھو جو اپنے عزیزوں اور بزرگوں کے حق میں بھی اچھا انسان نہیں وہ خدا کے حق میں بھی نیک انسان نہیں ہوسکتا ، گویا قرآن تقوی وصلاح کا معیار ظاہری رسوم دین نہیں قرار دیتا ، بلکہ اس کے نزدیک فلاح ونجات موقوف ہے حسن معاملت اور حقوق شناسی پر وہ کہتا ہے تم لوگوں کو محراب ومنبر میں نہ دیکھو کہ بدترین لوگ بھی زہد ورورع کے مقدس مقامات میں زینت افروز ہو سکتے ہیں ، صحیح معیار گھر کی چار دیواری ہے جو اپنے قریب ترین ماحول میں بےحسن ہے ‘ وہ معرفت الہی کی فضاء بعید اور اطراف میں کیونکر سانس لے سکتا ہے ؟ اس طور پر قرآن حکیم نے مسجد اور گھر میں ، دنیا ودین میں ایک مضبوط ربط قائم کردیا ہے اور وہ کسی قابل اخفاء زندگی کا قائل نہیں ، حل لغات: إِحْسَانًا: حق واجبی سے زائد یعنی والدین کے احکام کی بجا آوری ہی کافی نہیں ، بلکہ حقوق سے بہت کچھ زیادہ ، از راہ احسان ومحبت ان سے سلوک کیا جائے جو کسی طرح بھی معمولی نہ ہو ۔ الْيَتَامَى: جمع ، یتیم ، وہ بچہ جو شفقت مادری وپدری سے محروم ہوجائے ، وہ عورت جس کا خاوند نہ رہے ، ۔ الْمَسَاكِينِ: جمع مسکین کی ، سکون سے نکلا ہے ، وہ شخص جو بےبسی کے باعث کوئی حرکت نہ کرسکے یا جسے افلاس وناداری نے ہر طرح کی شوخی سے روک رکھا ہو ۔