سورة الانعام - آیت 111

وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھی بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے (١) اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لا کر جمع کردیتے ہیں (٢) تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ لاتے ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں زیادہ لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔ (٣)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) غرض یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کے تمام مطالبات کو پورا بھی کردیا جائے جب بھی یہ منکر ہی رہیں گے ۔ کیونکہ اسلام کو قبول کرلینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام اور نام وخرافات سے دستبردار ہوجائیں ، ایثار وتعاون کو شیوہ بنا لیں ذاتی وجاہتیں اور اعزاز چھوڑ دیں ، اللہ کے لئے جئیں اور اللہ کے لئے مریں ، دنیا کی بجائے دین نصب العین قرار دیں ، مادیت سے علیحدہ ہوجائیں ، دن رات روحانیت کے درپے ہیں ، ایمان ویقین کی دولت کو حاصل کرنے کے لئے آخری لمحہ حیات تک صرف کر ڈالیں ، اور یہ ان کے لئے ازحد مشکل ہے ، کیونکہ ان کے دلوں میں کفر سرایت کرچکا ہے اور ایمان کیلئے جگہ باقی نہیں رہی ۔