وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو چند روز جہنم میں رہیں گے، ان سے کہو کہ تمہارے پاس اللہ کا کوئی پروانہ ہے (١) اگر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا بلکہ تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو (٢) جنہیں تم نہیں جانتے۔
فریب خیال : (ف1) یہودی اس فریب خیال میں مبتلا تھے کہ چونکہ ہم انبیاء کی اولاد سے ہیں ، اس لئے اللہ کے زیادہ سے زیادہ مقرب ہیں ،﴿نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ﴾اور اس لئے ضروری ہے کہ ہماری نجات ہو ۔ اور ہم جو چند دن جہنم میں رہیں گے بھی تو وہ محض تزکیہ اور گناہوں کے کفارہ کے لئے ورنہ درحقیقت کوئی یہودی جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ، گویا وہ مذہب کی حقیقت صرف اس قدر سمجھتے تھے کہ یہ ایک قسم کا انتساب تھا اور بس ، عیسائی بھی اس نوع کے غرور نفس میں یہودیوں سے کسی طرح پیچھے نہیں ، انجیل میں لکھا ہے کہ ” تو خداوند خدا پر ایمان لا تاکہ تو اور تیرا گھرانا نجات پائے “۔ گویا صرف مسیح (علیہ السلام) کی قربانی کا اعتراف سارے گھرانے کی نجات کے لئے کافی ہے ، اسلام کہتا ہے کہ اللہ نے کسی قوم سے کبھی اس قسم کا وعدہ نہیں کیا ، نجات قول وعمل کے اجتماع کانام ہے اور مجرم چاہے کون ہو، سزاوار تعزیر ہے ﴿لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ﴾اس آیت میں یہ بھی بتایا کہ خدا کے وعدے جھوٹے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ خدائی دعوی کے معنی یہ ہیں کہ وہ پورے علم وقدرت کے ساتھ ظہور پذیر ہوا ہے ۔ تکمیل عہد کا مطالبہ : بنی اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو ، والدین اور دیگر اقرباومساکین کے ساتھ حسن سلوک روا رکھو ، اور لوگوں کو اچھے الفاظ میں مخاطب کرو ، نماز پڑھو اور زکوۃ دو ، اور آپس میں لڑو جھگڑو نہیں ، مگر وہ تھے کہ ان باتوں سے روگردان رہے ،