وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ تعالیٰ کے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ دریاؤں میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانا زمین کے تاریک حصوں میں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں (١)
علم الہی کی ہمیہ گیری : (ف ١) (آیت) ” کتاب مبین “۔ ایک اصطلا ہے ، جو تعبیر ہے علم الہی سے یعنی خدا کے علم میں کائنات کی تمام تفصیلات موجود ہیں ، وہ بحر وبر کی وسعتوں سے آگاہ ہے ، پتے پتے اور ڈال ڈال سے واقف ہے ، زمین کی تاریکیوں میں جو کچھ بھی ہے ، اسے علم ہے ، بعض کے نزدیک کتاب مبین سے مراد قرآن ہے ، مگر یہ صحیح نہیں ، اس لئے کہ سیاق وسباق میں اللہ کے علم اور وسیع اختیارات کا ذکر ہے ، محل اشتباہ لفظ مبین ہے ، جواب یہ ہے کہ مبین کا لازم کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے یعنی کتاب واضح ۔ ان معنوں میں اللہ کا علم مبین بھی ہے کہ قیامت کے دن ہماری تمام لغزشوں کو ظاہر کر دے گا ، بہرحال مقصود خدا کے معارف کی وسعت بیان کرنا ہے ۔ حل لغات : مفاتیح : جمع مفتح ، ، بمعنی گنجی ، چابی یا مفتح ، بمعنی خزانہ ۔