سورة الانعام - آیت 44

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردیئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وہ خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتًا پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) خدا کا قانون یہ ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک نباہ نہیں ہوئی ، جب تک برائیاں کثرت کے ساتھ ان میں نہ پھیل جائیں ، اور معصیت میں وہ نہ ڈوب جائیں ، جب ہر عیب کو وہ ثواب جاننا شروع کردیتے ہیں ، اور اللہ کی پکڑ سے غافل ہوجاتے ہیں ، تو یکایک اللہ کی غیرت میں جوش پیدا ہوتا ہے اور ان کو ایک دم فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ حل لغات : الباسآئ: تکلیف اور بؤس ۔ مبلسون : ناامید ، مایوس ، البس ، اسی سے مشتق ہے ، یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس ۔