أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
(مسلمانوں) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حالانکہ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سن کر، عقل و علم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں۔ (١)
تحریف بائبل : (ف ١) یہودیوں میں ایک جماعت ایسی بھی تھی جن کا وظیفہ حیات احکام خدا وندی میں تحریف کرنا تھا ، ادھر وہ کلام الہی کو سنتے ، ادھر اپنی مرضی کے موافق ڈھال لیتے ، نتیجہ یہ ہوا کہ بائبل ایک غیر محفوظ کتاب ہو کر رہ گئی ، موجودہ بائبل ہر طرح مشکوک ہے ، صحائف کی تعداد میں اختلاف ہے یقین میں اختلاف ہے اور پھر خود توریت کے بعض حصوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحیفے ضائع ہوگئے ہیں بخت نصر نے جب یروشلم میں آگ لگا دی ، بنی اسرائیل کی کثیر تعداد کو ما ڈالا اور بائبل کے تمام نسخوں کو جلا دیا تو عزرا نامی ایک شخص نے از سر نو بطور یاد دا اشت کے چند کتابیں لکھیں ، یہی موجودہ توریت ہے ، اس لئے یہ کسی طرح بھی محفوظ اور یقینی نہیں شمار کی جاسکتی ۔ یہودیوں کا تعصب : تعصب کی آخری حد کتمان حق ہے یہودی جو اس وصف میں ممتاز تھے ، اعلان حق سے بہت گھبراتے ، ایک مختصر گروہ ان کا مسلمانوں میں بددلی پیدا کرنے کے لئے بظاہر مسلمان ہوگیا ، اب جو ان کے منہ سے کبھی کوئی سچی بات نکل گئی اسلام کی تعریف میں تو دوسرے یہودیوں نے ملامت کرنا شروع کردی کہ یہ تم کیا غضب ڈھاتے ہو ؟ ایسا کبھی نہ کرنا ، مسلمان دلیر ہوجائیں گے ، گویا ان کے نزدیک حق وصداقت کی کوئی قیمت نہیں بجز اسلام دشمنی کے ، عبداللہ بن سلام جب مسلمان ہوئے تو انہوں نے فرمایا ذرا میری قوم سے میرے متعلق کچھ پوچھئے ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعیان یہود سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام میں کیسے آدمی ہیں ؟ انہوں نے کہا ، بہت خوب آدمی ہیں ، مگر جب انہیں بتایا گیا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں تو اسی ” بہترین “ انسان کو محض تعصب کی بنا پر گالیاں دینے لگے ۔