ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس بھی زیادہ سخت ہوگئے (١) بعض پتھروں سے نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں (٢) اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔
قساوت قلبی کی آخری حد : (ف ٢) جب کسی قوم کی مذہبی حس مردہ ہوجائے تو پھر احساس وتاثر کی تمام قوتیں سلب کرلی جاتی ہیں ، بنی اسرائیل پہیم انکار وتمرد کی وجہ سے اس درجہ قاسی القلب ہوگئے کہ انہیں متاثر کرنا ناممکن ہوگیا ، ان آیات میں قدرت کے ایک ہمہ گیر قانون کی طرف غافل انسانوں کو متوجہ کیا گیا ہے ، بتایا گیا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ رب خاطر کی بنائے ہوئے قوانین میں بندھا ہوا ہے اور اپنے احساس کے لئے مجبور ہے کہ ان قوانین کی پیروی کرے ، پتھر ایسی ٹھس اور ٹھوس چیز بھی اس احساس اطاعت سے محروم نہیں ، دیکھو بعض پتھروں میں سے پانی رستا ہے بعض میں سے سوتے کے سوتے پھوٹتے ہیں اور دریائے ذخار کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ، پھر دیکھو ایسے بھی ہیں جو چند مختص قوانین کی اطاعت کرتے ہوئے اونچی اونچی جگہ چھوڑ دیتے ہیں اور لڑھک کر نیچے آرہتے ہیں ۔ کیا بنی اسرائیل پتھروں سے بھی گئے گزرے ہیں ، عقل وبصیرت کے علاوہ انہیں بےدرپے انبیاء کے ذریعہ سے الہام ووحی کی برکات سے نوازا گیا ہے مگر اس کی قساوت قلبی کی یہ حد ہے کہ یہ بالکل غیر متاثر رہے ۔ اس مفہوم کو عجیب بلیغ استعارہ تبیعہ تمثیلہ کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے ، یہ مقصد نہیں کہ پتھر بھی دل ودماغ رکھتے ہیں ، البتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ساری کائنات کا ایک مذہب ہے ، اشجار سے لے کر انسان تک ایک حی وقیوم کے فرمانبردار ہیں ، دانستہ یا نادانستہ سب اس کے قوانین طبیعہ کی اطاعت میں مصروف ہیں ، مگر انسان بالخصوص مجرم انسان اس کو محسوس نہیں کرتا ۔ حل لغات : قسمت : مادہ قساوۃ ۔ دل کا غیر متاثر ہوجانا ۔ یتفجر : اصل تفجر ، پھوٹنا ، نکلنا ، بہنا ، جھرنا ، یھبط : مصدر ھبوط ، بمعنے گرنا :