فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
ہم نے کہا اس گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگا دو ( وہ جی اٹھے گا) اس طرح اللہ مردوں کو زندہ کر کے تمہیں تمہاری عقلمندی کے لئے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے، (١)
(ف ١) اصل میں ایک ہی واقعہ ہے لیکن قرآن حمید نے کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید دو الگ الگ قصے ہیں ، اس طرز بیان کو اختیار کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی دو بہت بری عادتوں پر بالتفصیل روشنی پڑ سکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ ان میں یہ دونوں مرض بالاستقلال موجود ہیں ، ایک بلا وجہ بلاضرورت تفاصیل میں جانے کا ، دوسرے اخفاء جرم کا ، آیات کے پہلے حصے کو اس بات پر ختم کیا کہ (آیت) ” وما کادوا یفعلون “۔ کہ وہ کسی طرھ بھی عمل پر آمادہ نہ تھے ۔ دوسرے حصہ کے آخر میں فرمایا (آیت) ” ویریکم ایتہ لعلکم تعقلون “۔ کہ خدا اپنے نشان تمہیں دکھاتا ہے تاکہ تم جان لو ، غرض یہ ہے کہ ایک طرف تو ان کی حیلہ جوئی اور کسل اور تساہل فی الدین کو بےنقاب کیا جائے اور دوسری طرف اخفائے جرم اور اللہ کے قانون پر روشنی ڈالی جائے کہ جرائم بجائے خود اعلان اعتراف کی دوسری شکل ہے ۔