وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم مَّا يَلْبِسُونَ
اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اب کا اشکال کر رہے ہیں (١)
(ف ١) ان دو آیتوں میں مکے والوں کے ایک مخصوص شبہ کا جواب ہے ، مکے والے یہ کہتے تھے کہ ایک انسان ہمارے لئے کیسے راہنما ہو سکتا ہے ، گویا ان کی نخوت انہیں ایک انسان کو نبی ماننے سے ابا کرتی تھی ، ان کا خیال یہ تھا کہ منصب نبوت کسی فرشتہ کو ملنا چاہئے تھا ، قرآن حکیم نے اس اعتراض کے وہ جواب دیئے ہیں ایک تو یہ کہ اگر فرشتہ پیغمبر قرار پاتا ، تو حجت تمام ہو چکتی ، اور تمہارے لئے انکار وتاویل کی قطعی گنجائش نہ رہتی ، اس صورت میں تمہاری ہلاکت یقینی تھی ، پھر اگر فرشتہ ہوتا ، جب بھی انسانی قالب میں ظاہر ہوتا ، اور تمہار اعتراض بدستور قائم رہتا ۔