وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔
جادواثر قرآن : (ف ١) ۔ اہل کتاب میں حق وصداقت کے شیدائی جب قرآن حکیم کی آیات کو سنتے تو سینوں میں عرفان وحقیقت کا دریا مؤجزن ہوجاتا اور آنکھیں بادہ کیف ، سے چھلکنے لگتیں ، یا قرآن کی جادو اثر ہی اس درجہ مسلم ہے کہ کوئی ذی ہوش اور خرد مند انسان اسے سن کر غیر متاثر نہیں رہ سکتا ، شاہ حبشہ نے جب پہلے پہل حضرت جعفر (رض) تیار کی زبان فیض ترجمان سے کلام اللہ کی چند آیتیں سنیں تو بےقرار ہوگیا ، اور دیر تک رقت وانفعال کے تاثرات میں مستغرق رہا ، بات یہ ہے کہ خدا کی باتیں حقیقت سادگی اور جمال کا مرقع ہوتی ہیں ، ناممکن ہے کہ ان کے جلوہ ہائے عریاں کو دیکھا جائے اور (آیت) ” خر موسیٰ صیعقا “۔ کا منظر نہ کھنچ جائے ، (آیت) ” فاکتبنا مع الشھدین “ سے مراد یہ ہے ہمین بھی امت میں تبیغ اشاعت کی توفیق سے شہادت کے معنی عربی میں حق کی گواہی اور بلیغ کے ہیں اسی مناسبت سے مسلمانوں کو شھد اللہ فی الارض کہا گیا ہے اور یہ وجہ ہے کہ انہیں (آیت) ” لتکونوا شھدآئ“ کے دلنواز فخر سے نوازا گیا ہے مقصد یہ ہے وہ اہل کتاب جو تبتل وانقطاع کی زندگی بسر کرتے ہیں ، جب قرآن کی دعوت کو سنتے ہیں ، تو طبیعتوں میں ایک جوش پیدا ہوجاتا ہے اور وہ بدل چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریق سے اللہ انہیں برزور مبلغ بنا دے اور وہ قرآن یسے چشمہ فیض کو ہر تشنہ کام حقیقت تک پہنچا دیں ، اس دعوت کو عام کردیں یعنی کاغ اہبار سے لے کر قصر امراء تک یہ روشنی پھیل جائے (آیت) ” ویکون الدین کلہ للہ ۔