قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ اللَّهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں بتاؤں؟ تاکہ اس سے بھی زیادہ اجر پانے والا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون ہے؟ وہ جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور اس پر وہ غصہ ہو اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے معبودان باطل کی پرستش کی، یہی لوگ بدتر درجے والے ہیں اور یہی راہ راست سے بہت زیادہ بھٹکنے والے ہیں (١)۔
(ف ١) (آیت) ” بشر من ذلک “ سے مراد یہ ہے کہ اگر تم عقائد صحیحہ کو درست اور ٹھیک خیال نہیں کرتے اور توحید تمہارے نزدیک برائی کا نام ہے تو بتاؤ اللہ کی لعنتیں اور غضب وغضہ کو کیا کہو گے ؟ کیا تم ہی وہ نہیں ہو جنہیں نافرمانی وعصیان کے معاوضے میں بندر اور سور بنا دیا گیا اور طاغوت پرستی تمہاری گھٹی میں ڈال دی گئی ؟ پھر کیا تم ہی بدترین اور گمراہ تر نہیں ہو ؟ مقصد یہ ہے ” بشر “ کا لفظ بطور مفروضے کے ہے حقیقت کے نہیں ۔ (آیت) ” وعبدالطاغوت “۔ میں لوگوں نے مختلف قرات کا ذکر کیا ہے جو تمام تر شاذ ہیں اور ساقط الاعتبار یہ خالص عربی انداز بیان ہے جس میں کوئی الجھن نہیں اس لئے یہی موزوں ہے کہ قرات متواترہ کو ترجیح دی جائے اور عبد کو بصورت فعل پڑھا جائے ،