سورة البقرة - آیت 65

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم (١) میں سے ہفتہ کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

بنی اسرائیل کی طبع حیلہ جو ۔ (ف1) یہودیوں نے مذہب کے بارے میں سخت ٹھوکریں کھائی ہیں ، انہوں نے سمجھ لیا کہ خدا کا مقصد صرف الفاظ کے ظاہری مفہوم کو پورا کرتا ہے ، چاہے اصل منشاء کی مخالفت ہی ہو ۔ چنانچہ جب سبت کے دن کام کاج سے ان کو روکا گیا تو وہ ایک اور حیلہ تراشنے میں کامیاب ہوگئے ، یعنی دریا کے کنارے کنارے کچھ حوض کھود رکھے تاکہ مچھلیاں سبت کے دن بھی ہاتھ سے نہ جانے پائیں ، اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب موزوں دیا ، ان کو ان کی ظاہری صورت سے محروم کردیا اور ان کو باطنی معنویت سے بالکل الگ شکل میں تبدیل کردیا اور بتایا کہ اللہ کی آیات کو مسخ کرنے کا یہ نتیجہ ہے ، مذہب صرف الفاظ وظاہر کی پابندی کا نام نہیں ‘ بلکہ معنویت وبطون کا خیال بھی رکھنا چاہئے وہ جو بےعمل وملحد ہوتے ہیں وہ یا تو اتنے ظاہر پرست ہوجاتے ہیں کہ صرف الفاظ کو سامنے رکھتے ہیں اور یا پھر اس قدر تعمق وتفکر کے عادی کہ ظاہر و باہر مفہوم سے تغافل اختیار کرلیتے ہیں اور انہیں محسوس بھی نہیں ہوتا ۔ اسلام کی ہدایت اس باب میں یہ ہے کہ کسی قسم کا حیلہ جو نفس منشائے الہی کے خلاف ہو ، الحاد ہے اور کفر ، الفاظ ومعانی میں ایک ربط رہنا چاہئے ، جہاں یہودی ظاہر پرستی کی وجہ سے خشک اور یا بس ہو کر رہ گئے وہاں عیسائیوں نے یہ بڑی غلطی کی کہ روحانیت میں غلوکی وجہ سے بےپرواہ ہوگئے اور شریعت کے احکام کو لعنت سے تعبیر کرنے لگے ، اسلام نے آکر بتایا کہ ہمیشہ سے مذہب کا مقصد ظاہروباطن کا تزکیہ رہا ہے جس طرح وہ وکیل جو قانون کے الفاظ سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور قانون کے مقصد کی مخالفت کرے ‘ حکومت کا مجرم ہوتا ہے ، اسی طرح وہ علمائے دین جو ظاہری الفاظ سے اپنے مفاد کے ماتحت حیلہ تراش لیں ‘ خدا تعالیٰ کے مخالف ہوں گے ، دین دار اور متورع اشخاص تو کسی طرح بھی اس نوع کے حیل کی اجازت نہیں دے سکتے ، البتہ اصحاب حرص وآزا اور ارباب عزت وجاہ جن کا مقصد ارذل ترین دنیا کا حصول ہوتا ہے ۔ وہ ضرور کوشاں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دین کو جلب زر کا ذریعہ بنایا جائے ، جب کسی قوم کی یہ ذہنیت ہوجائے کہ وہ دنیا کو مقدم رکھے اور دین کو محض اپنے سلسلۃ العیش کی ایک کڑی سمجھے تو پھر ہلاکت قریب ہے ، اس وقت دین کا احترام اٹھ جاتا ہے ، زیادہ سے زیادہ الفاظ کے ظاہری مفہوم کو ادا کرلینا ہی وہ کافی سمجھتے ہیں طرح طرح کے حیلوں سے اپنے مفاد ووقار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے قصے ہمیں سنائے جارہے ہیں ان کے اقبال وادبار کی پوری داستانیں دہرائی جارہی ہیں ۔ تاکہ ہم ان کے نقش قدم پر نہ چلیں اور آنے والی ہلاکت سے بچیں ۔ حل لغات : اعْتَدَوْا: مصدر اعتداء زیادتی کرنا ، السَّبْتِ : اصل معنی قطع کرنے کے ہیں ، رات کے متعلق ارشاد ہے ۔ وجعل اللیل سباتا : یعنی رات انکار سے چھڑا دینے والی ہے ۔ سبت کے معنی ہوئے اس دن کے جس میں کام کاج نہ کیا جائے ، مراد ہفتہ کا دن ہے ، قِرَدَةً: بندر ۔ خَاسِئِينَ : جمع خاسئہ بمعنی ذلیل ورسوا ۔