سورة المآئدہ - آیت 41

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے رسول! آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان (منافقوں) میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعوا کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ان کے دل باایمان نہیں (١) اور یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلط باتیں سننے کے عادی ہیں اور ان لوگوں کے جاسوس ہیں جو اب تک آپ کے پاس نہیں آئے وہ کلمات کو اصلی موقف کو چھوڑ کر انہیں تبدیل کردیا کرتے ہیں، کہتے کہ اگر تم یہ حکم دیئے جاؤ تو قبول کرلینا اگر یہ حکم نہ دیئے جاؤ تو الگ تھلگ (٢) رہنا اور جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لئے خدائی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ان کے دلوں کو پاک کرنے کا نہیں ان کے لئے دنیا میں بھی بڑی ذلت اور رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے بڑی سخت سزا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

انبیاء علیہم السلام کی بےچینی : (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ رسول چونکہ پیکر ہوتا ہے خلوص اور شفقت کا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ختم الرسل ہیں یعنی خلوص اور شفقت کی انتہائی اور آخری صورت اس لئے ضرور ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفر ونفاق سب سے زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو ۔ (آیت) ” لایحزنک “ میں تلقین یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس درد سے بےچین ہیں ‘ اس میں تخفیف پیدا کیجئے کیونکہ جب یہی لوگ کفر ونفاق کی وجہ سے دکھ محسوس نہیں کرتے تو آپ کیوں حزن وملال سے کام لیں ۔ باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقتوں کے یہ منافقین کا گروہ ہمیشہ اسلام کی برکات سے محروم رہا اور ان کے دل آیات وبراہین دیکھنے کے باوجود خبث وکفر کے حامل رہے ، اس لئے خدا نے فرمایا کہ جب یہی اصلاح و ایمان کے ذوق سے آشنا نہیں ہونا چاہتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں ان کے لئے بےقرار ہیں ۔ بات یہ ہے کہ نبی اپنے عہدے ومنصب کے لحاظ سے مجبور ہے کہ قوم کے لئے بےپناہ درد اپنے سینے مین پنہاں رکھے وہ دن اور رات ہمہ وقت ملت کی اصلاح کے لئے بےچین رہتا ہے اور باوجود سخت تکالیف کے بجز ” اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون “ اور کچھ نہیں کہتا ۔ اس کے بعد یہودیوں کے جرائم گنائے ہیں کہ دیکھو ، یہ کم بخت کتنے جھوٹے ہیں اور کس طرح جاسوسی جیسے فعل شنیع کا ارتکاب کرتے ہیں اور کیونکر احکام الہی کو اپنی حسب منشا بدل لیتے ہیں ان سے خدا نے ہدایت کی توفیق چھین لی ہے اور دنیا اور آخرت میں ان کے سوائے ذلت اور رسوائی کے اور کوئی چیز مقدر نہیں ۔ یہ لوگ جھوٹے اور حرام خور ہیں ، ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگ اگر اسلام کی روشنی کو قبول نہ کریں تو مضائقہ نہیں یہ اس درجہ ہدایت ورشد سے دور ہوچکے ہیں کہ اب ان کا راہ راست پر آنا از قبیل محالات ہے ۔ حل لغات : یسارعون ، مصدر یسارعۃ ۔ جلد بازی کرنا لپک کر اور دوڑ کر کسی چیز میں حصہ لینا ۔ ھادوا ، یعنی یہودی ، یہودا کی طرف منسوب کرنا ۔ فاحذروہ : مادہ حذر ، بچو احتراز کرو ۔ فتنۃ : ۔ آزمائش ۔ ابتلاء ۔