مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا (١) اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے (٢)۔
(ف2) ﴿مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ﴾سے یہ مراد ہے کہ جب ابن آدم حسد وبغض کے جذبات سے متاثر ہو کر اپنے سگے بھائی کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے تو عام انسانوں کے لئے اس نوع کے اقدام میں کوئی باک نہ ہوگا ۔ لہذا ضروری ہے کہ انہیں اس کی اہمیت جتا دی جائے ، چنانچہ ارشاد ہے کہ انسان کے خون کی قیمت نہایت گراں اور پیش بہا ہے ایک فرد کو قتل کرنا پوری قوم وامت کے قتل کے مترادف ہے اور اسی طرح کسی شخص کو مہلکات سے بچانا پوری ملت کو بچانا ہے ۔ (ف3) ﴿وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا﴾سے یہودیوں کی مذمت مقصود ہے کہ یہ لوگ باوجود انبیاء کی زبان فیض التیام سے امن وعافیت کے برکات سننے کے اور باوجود قتل وسفک کے خلاف تعلیمات سے آگاہ ہونے کے پھر بھی اہل حق وصداقت سے الجھتے ہیں اور اسراف وظلم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ حل لغات : أَحْيَاء: مصدر احیاء زندہ کرنا اور زندہ رکھنا اور بچانا ۔ مُسْرِفُونَ: مصدر اسراف ، زیادتی کرنا ۔ حدود جائزہ سے تجاوز کرنا ۔