وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں (١) ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کردیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض اور عداوت ڈال دی جو تا قیامت رہے گی (٢) اور جو کچھ یہ کرتے تھے عنقریب اللہ تعالیٰ انہیں سب بتا دے گا،
اغراء عداوت : (ف ١) عیسائی بھی یہودیوں کی طرح اصل پیغام کو چھوڑ بیٹھے اور لاطائل بت پرستانہ مسائل میں الجھ گئے اور مذہب یہ قرار دیا کہ یہودیوں کی مخالفت کی جائے نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی بھی عیسائیوں کے خلاف دل میں کینہ اور بغض رکھنے لگے ۔ قرآن کریم نے اس آویزش کا نام اغراء عداوت وبغض رکھا ہے ۔ (آیت) ” الی یوم القیمۃ “ ۔ سے مراد یہ نہیں کہ یہ دونوں قیامت تک باقی بھی رہیں گے بلکہ مدت سے کنایہ ہے کیونکہ (آیت) ” لیظھرہ علی الدین کلہ “ کے ماتحت ایک وقت آئے گا جب کہ اسلام کی عالم افروزروشنی ساری دنیا کو جگمگا دے گی ۔