يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا ہے اسے یاد کرو جب ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا (١) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
توکل کی حیران کن قوت تاثیر : (ف ١) مسلمان جب تک مسلمان رہیں اور خدا پر زبردست اعتماد رکھیں ، غیب سے ان کی اعانت کی جاتی ہے اور قدرت اپنے سارے انتظام کے ساتھ ان کی مدد پرکمر بستہ ہوجاتی ہے ۔ کفار نے ہمیشہ کوشش کی کہ اسلام کے چراغ ہدایت کو بجھا دے ، مگر اللہ نے اس کی روشنی کو اور زیادہ پرانوار بنا دیا ۔ بنی نضیر کے یہودیوں نے ایک دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) عنہم اجمعین کو فریب سے مار ڈالنا چاہا ، مگر آپ پیغمبرانہ فراست سے معاملہ کی اصلیت کو پاگئے اور بچ گئے ، مقام عسفان میں ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وظیفہ نماز میں مشغول تھے کہ اہل شرک کے تیور بدلے مگر اس وقت بھی تدبیر الہی نے ان کو ناکام رکھا ، غزوہ ذات الرقاع سے واپسی کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے سستانے کے لئے بیٹھے تھے کہ جھپکی آگئی ، غورث بن حارث وہاں تھا ، اٹھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلوار ہاتھ میں لے لی ، کہنے لگا کہیئے اس وقت کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا ” اللہ “ ۔ اس زبردست ایمان وتوکل کو دیکھ کر گھبرا گیا ، کیونکہ ایسے اضطراب کے وقت ضبط نفس کی اس سے بہتر مثال پیش کرنا ناممکن ہے غرضے کہ ایمان وتوکل کی قوتیں بےپناہ ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ایمان وتوکل جمود وبے عملی کا خاکہ نہ ہو ، بلکہ نام ہو زندگی اور حیات دائمی کا ۔