سورة المآئدہ - آیت 4

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ سے دریافت کرتے ہیں ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں (١) اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھار رکھا ہے، یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے (٢) پس جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھالو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرلیا کرو (٣) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

شکار : (ف ٢) مقصد یہ ہے ہر پاکیزہ چیز جو ذوق سلیم پر گراں نہ گزرے اور اخلاقی وبدنی مضرتوں سے خالی ہو ۔ حلال ہے ، (آیت) ” مما علمکم اللہ “ کہہ کر شکار کی فضیلت بیان کی ہے ۔ (آیت) ” واتقوا اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ شکار بلا ضرورت مستحسن نہیں کیونکہ اس سے قساوت قلبی کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں کیونکہ اس سے قساوت قلبی کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ، یوں حاجت وضرورت کے مطابق بہترین ورزش ہے جس سے حوصلہ وجرات کے جذبات پیدا ہوتے ہیں صحابہ (رض) عنہم اجمعین میں متعدد لوگ شکار سے ذوق رکھتے تھے ، عدی بن حاتم (رض) کو جو ایک مشہور شکاری ہیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں :۔ ” جب کتے کو شکار کے لئے دوڑاؤ تو بسم اللہ کہہ لو ، اگر وہ صحیح سلامت تم تک شکار لے آئے تو ذبح کرلو اگر مجروح ہو تو دیکھ لو کہ راستے میں اس نے اس میں سے کچھ کھایا تو نہیں ، اگر کھاچکاہو تو پھر تم نہ کھاؤ اور اگر نہ کھایا ہو تو وہ تمہارے لئے حلال ہے ، بلاخرخشہ کھاؤ ۔ “ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورتا کتوں کو رکھنا جائز ہے ۔ حل لغات : مخمصۃ : بھوک ۔ الجوارح : ہر شکاری جانور ۔