ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
لیکن پھر اس لئے کہ تم شکر گزاری کرو، اس موت کے بعد بھی ہم نے تمہیں زندہ کر دیا
(ف ١) بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں جس خدا کی طرف تو بلاتا ہے ‘ وہ بالمشافہ دکھا ، تاکہ ہم دیکھ کر اس پر ایمان لائیں ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ خدا کے متعلق نہایت ہی ناقص فہم کا تخیل رکھتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ خدا بھی انسانوں کی طرح مجسم ہے اور اسے دیکھا جا سکتا ہے ، اس مطالبہ کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ متواتر ومسلسل بت پرستی کی وجہ سے وہ مشاہدات سے زیادہ مرغوب تھے اور کوئی تنزیہی تخیل جو بالا از تجربہ واحساس ہو ‘ انہیں اپنی طرف جذب نہ کرسکتا تھا ، موسیٰ (علیہ السلام) نے جب خدائے تعالیٰ کی توحید کی جانب ان کو ملتفت کرنا چاہا تو وہ اکڑ گئے کہ جب تک خدا کو صورت تمثال کے رنگ میں نہ دیکھ لیں گے نہ مانیں گے ، موسیٰ (علیہ السلام) ہرچند اس ضد کی معقولیت کو سمجھتے تھے تاہم بطور اتمام حجت کے ان کے چند آدمیوں کو لے کر پیش گاہ جبروت میں حاضر ہوگئے ، وہاں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال وحشمت کا ادنی سا اظہار فرمایا تو عقل وحواس کی دنیا میں کھلبلی سی مچ گئی ، ابھی حریم اقدس ونور کے چند پردے ہیں چاک ہوئے تھے کہ قلب ودماغ کا توازن کھو بیٹھے اور موت آگئی ، اس کے بعد اللہ کے فضل سے وہ سنبھلے ، جان میں جان آئی تو فرمایا ، جاؤ خدا کا شکریہ ادا کرو ، عقل واستعداد کو کام میں لاؤ اور خدائے قدوس پر غائبانہ ایمان رکھو ۔