يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں عزیزوں کے (١) وہ شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیادہ تعلق ہے (٢) اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا (٣) اور اگر تم نے کج بیانی کی یا پہلو تہی کی (٤) تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
(ف ١) ان آیات میں مسلمان کو ہر حالت میں منصف وعادل رہنے کی تلقین کی ہے ۔ یہ بالکل آسان ہے کہ ہم دوسروں کے معاملات میں حکیم بن جائیں اور عدل وانصاف کے تقاضوں سے ان کا ناک میں دم کردیں مشکل یہ ہے کہ جب سچ بولنے سے اپنے نفس پر زد پڑتی ہو اور اپنے اعزا واقرباء مصائب سے دو چار ہوتے نظر آتے ہوں ‘ اس وقت عادل رہیں اور سچی شہادت دیں ۔ قرآن حکیم نے مسلمان کا جو تخیل پیش کیا ہے ‘ وہ اتنا پاکیزہ اور بلند ہے کہ بےاختیار بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے ۔ یعنی قوام بالقسل پیکر عدل وانصاف ، سچائی کے لئے اپنے آپ کو خطرات میں ڈالنے والا ۔