أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ
کیا تو نے دیکھا جو (روز) جزا کو جھٹلاتا ہے (١)۔
سورۃ الماعون ف 1: ان آیات سے شخص معین مراد نہیں ہے ۔ بلکہ اس وقت کے عام سرمایہ دار مراد ہیں کہ ان کی ذہنیت اس قسم کی تھی کہ یہ اللہ سے نہیں ڈرتے تھے اور عیش وعشرت میں اس چیز کا کبھی خیال نہیں کرتے تھے کہ ہمیں اللہ کے سامنے ایک دن ان رنگ رلیوں کا جواب دینا ہے ۔ یہ فواحش اور برائیوں پر تو بےدریغ روپیہ خرچ کردیتے تھے ۔ لیکن اگر کوئی یتیم بےنوا آجائے تو اس کو ڈانٹ دیتے تھے ۔ ان کے دلوں میں کبھی یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا تھا کہ اپنی ثروت میں مسکینوں اور غریبوں کو بھی شامل کیا جائے اور ان کی ادنیٰ ضروریات بھی پوری کی جائیں ۔ یہ لوگ محض سنگ دل اور بداخلاق تھے اور کئی صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی سرمایہ داری کی یہی ذہنیت ہے ۔ اس میں ذرہ برابر کمی نہیں پیدا ہوئی ۔ آج یہ شراب پر ، ڈنر پر ، گھوڑ دوڑ پر ، جوئے پر اور فیشن پر ہزاروں روپے روزانہ صرف کرسکتا ہے ۔ مگر اسکے پاس روپیہ نہیں ہے تو خدا کے لئے اور صرف قومی اور ملی ضروریات کے لئے نہیں ہے *۔ اس کے بعد ان لوگوں کے لئے اظہار تاسف کیا ہے جو مال ودولت کیحصول میں تو سرگرم ہیں ۔ مگر خدا کے آگے جھکنے میں سست ہیں ۔ جو نمازیں پڑھتے ہیں ۔ مگر سہو وغفلت کے ساتھ محض ریاکارانہ ۔ اور جہاں کچھ ہاتھ سے دینا پڑے ۔ وہاں ان کو تامل نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ صاف انکار کردیتے ہیں ۔ یہ چاہتے ہیں کہ ملت کے لئے خدا کے نام پر تو کچھ نہ دیا جائے اور چند ریاکارانہ سجدوں سے اس کو خوش کرلیا جائے *۔