وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (١)
(ف ٢) قوموں کا آپریشن : جس طرح بدن کے بعض حصے اس لئے کاٹ دینا پڑتے ہیں کہ وہ سارے نظام بدن کو بیکار نہ کردیں ، اسی طرح قوموں میں جب ناقابل اصلاح خرابیاں پیدا ہوجائیں تو پھر آپریشن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے باوجود ہارون (علیہ السلام) کے موجود ہونے دوبارہ بچھڑے کی پوجا شروع کردی جس کے وہ مصر میں عادی تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ان لوگوں کو جن کی رگ رگ میں شرک کے مہلک جراثیم موجود ہیں ‘ ہلاک کردیا جائے ، ورنہ خطرہ ہے کہ تمام بنی اسرائیل اس روحانی مرض میں مبتلا نہ ہوجائیں اور پھر اصلاح کی کوئی توقع نہ رہے گی ۔ اس میں شک نہیں کہ خدا رحیم ہے لیکن یہ بھی یقین ہے کہ وہ حکیم بھی ہے ، رحمت کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو کسی طرح اس مرض سے بچا لیا جائے اور حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ بدن کے متعفن حصے کو الگ کردیا جائے ، اس لئے جو کچھ ہوا ، یہ ضروری تھا ، اسی لئے ارشاد ہے ، (آیت) ” ذالکم خیرلکم عند بارئکم “۔ حل لغات : العجل : بچھڑا ۔ جھرۃ : بالمشافہ رودر رو ، بالکل سامنے ، الفرقان : حق وباطل میں امتیاز کرنے والا معجزہ بین اور واضح دستور العمل ۔ بارئکم : ابلاری خدا کا نام ہے پیدا کرنے والا ۔