بَلَىٰ إِنَّ رَبَّهُ كَانَ بِهِ بَصِيرًا
کیوں نہیں، حالانکہ اس کا رب اسے بخوبی دیکھ رہا تھا (١)
(ف 1) جس شخص کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا ، وہ اللہ کی نظروں میں حقیروذلیل ٹھہرے گا ۔ دنیا میں اس شخص کی کیفیت یہ تھی کہ عاقبت کے متعلق کبھی اس نے سوچا ہی نہ تھا ۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ ہمیشہ اپنے متعلقین اور وابستگان میں اسی طرح خوش وخرم زندہ رہے گا ۔ نہ کبھی مرے گا اور نہ مر کر اللہ کے حضور میں پیش ہوگا ۔ مگر کیونکر ایسا ہونا ممکن تھا جب کہ موت وبعثت اس ذات کے اختیار میں ہے جو سب کچھ جانتی اور دیکھتی ہے ۔ جو یہ علم رکھتی ہے کہ بعض لوگ میرے نام کے اچھالنے کی پاداش میں سخت تکلیف وعسرت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ میرے دشمن ہیں ۔ مگر دنیا میں میں نے ان کو کسی تکلیف سے دو چار نہیں کیا ۔ اس لئے انصاف وعدل کا تقاضا یہ ہے کہ ایک دن ایسا مقرر کیا جائے جب سب ایک جگہ جمع ہوں اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزاء وسزا پائیں ۔