سورة النسآء - آیت 95

لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھے رہنے والے مومن برابر نہیں (١) اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعدہ دیا (٢) ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) پیشتر آیات میں قتل خطاء وعمد کی برائی بیان فرمائی تھی ، اس کے بعد جہاد کے لئے سفر کا تذکرہ ہے ان آیات میں براہ راست مجاہد کے فضائل کا احصار ہے ۔ مجاہد کے معنی جدوجہد اور کوشش کے ہیں قرآن حکیم کی اصطلاح میں ضعف واضحلال کے خلاف مؤثر احتجاج کانام جہاد ہے یعنی وہ لوگ مجاہد ہیں جو قوم میں قوت اور رفعت پیدا کرنے کے لئے لڑتے ہیں ۔ قائدین کی جماعت وہ ہے جو عافیت کوش ہیں جن کے دل میں ضعف اور بےبسی کے خلاف کوئی جذبہ نفرت نہیں ، ظاہر ہے پرجوش مجاہدین کے مقابلہ میں کاہل اور کم ہمت بزدل کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، ان آیات میں اسی حقیقت جان بخش کا اظہار ہے کہ خدائے قوی وتوانا نے باہمت اور بہادر انسانوں کو بےغیرت اور بےحس لوگوں پر ترجیح دی ہے اور آخرت وعقبی کی زندگی میں ان لوگوں کے درجات وفضائل کے بےشمار انواع ہیں ۔ ﴿أُولِي الضَّرَرِ﴾ سے مراد وہ معذور لوگ ہیں جو جہاد میں شریک نہیں ہو سکتے ۔ ﴿إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ﴾کی شرط کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں یعنی ان کے دل میں خدا اور رسول (ﷺ) کے لئے بےپناہ اخلاص ہے ، ایسے لوگ مجاہدین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ، انہیں بھی مجاہدین کا سا درجہ ملے گا ۔