وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہوجاؤ، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ (١) پھر اگر یہ منہ پھیر لیں تو انہیں پکڑو (٢) اور قتل کرو جہاں بھی ہاتھ لگ جائیں (٣) خبردار ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا۔
جہاد و ہجرت : (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ ان کفار کی جو تم سے برسرپیکار ہیں ، خواہشات کیا ہیں ؟ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں اپنی طرح کفر وظلمت کی وادیوں میں ٹامک ٹوٹیاں مارتے دیکھیں ایسے لوگ ہرگز کسی دوستی اور تعلق کا استحقاق نہیں رکھتے ، یہ اس قابل ہیں کہ ان سے کامل بیزاری کا اظہار کیا جائے ۔ ہجرت سے مراد ان آیات میں مخلصانہ اسلام کو قبول کرنا ہے اسلام و ہجرت باہم اس لئے لازم ہیں کہ قبول حق وحقانیت کے بعد باطل سے جنگ قطعی اور واجبی ہے ۔ وہ لوگ جو اسلام قبول کرکے بھی کفروشرک میں بھرے رہتے ہیں ، درحقیقت مسلمان نہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” انا بری من کل مسلم اقام بین اظھر المشرکین “۔ مجبوری اور اضطرار دوسری بات ہے ، دل میں کفر کی خلاف زبردست غصہ وغضب موجود ہونا چاہئے یہی مطلب ہے اس حدیث کا کہ ” لاھجرۃ بعد الفتح ولکن جھاد “۔ یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت کا اب کوئی موقع نہیں ، مگر دل میں مجاہدانہ ولولے ضرور موجزن رہیں اور قصد وارادہ میں زور ہجرت باقی ہو ۔ مسلمان کسی حالت میں بھی جمود وتسفل کی زندگی پر قانع نہیں رہتا ، وہ مجسم بےچینی اور اضطراب ہے ۔ اس کے نزدیک اس نوع کی قناعت کفر ہے ، وہ یہ چاہتا ہے کہ پوری آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرے ، کفر اسے دیکھ دیکھ کر جلے ، شرک اس کے موخدانہ اقدامات سے کانپ اٹھے ۔ ظلمت وتاریکیاں اس کے نام سے کافور ہوجائیں ۔ یعنی اس کا وجود ہمہ قہر وغلبہ ہے ۔ وہ مقہور ہونا جانتا ہی نہیں ۔ ہوسکتا ہے بعض حالات کی موجودگی وہ ہاتھ میں تلوار نہ لے سکے ، مگر یہ ناممکن ہے کہ اس کا دل ظلم وتسلط کو برداشت کرلے ، وہ آزاد پیدا ہوتا ہے اور حاکم ومسلط رہ کر جیتا ہے ۔