عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ
وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا۔
سورہ عبس اور مقام نبوت ف 1: یہاں اس بات کو بطور اصل اور حقیقت کے ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ مقام نبوت اس سے کہیں بلند وارفع ہے کہ اس کی جانب گناہ یا معصیت کو منسوب کیا جائے ۔ کیونکہ نبوت کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ ایک سیرت ہے جو عام انسانوں سے ممتاز اور برتر ہے اور ایک ایسا کیرکٹر ہے جو عصمت اور عفت کے زیور سے آراستہ ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کی ساری زندگی بےداغ اور سراسر پاک ہوتی ہے ۔ ان سے اگر بتقاضائے بشریت لغزش کا صدور ہوتا ہے تو محض دوران اجتہاد کے ایسے پہلو اختیار کرلیتے ہیں ۔ جو اولیٰ تو ہوتا ہے ۔ مگر اولیٰ تر نہیں ہوتا اور ان کے مرتبہ ومقام کی بلندی اور رفعت کی وجہ سے اتنی سی بات بھی اللہ کو ناگوار ہوتی ہے اور اس پر ان کو تادیبا مطلع کردیا جاتا ہے *۔ سورۃ عبس میں بھی بالکل اسی قسم کا ایک واقعہ مذکور ہے ۔ کہ کیونکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجتہاد میں سہو ہوا اور کیونکر اللہ کی جانب سے متنبہ کیا گیا ۔ بات یہ تھی کہ ایک دن صنادید قریش کا ایک گروہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معروف کلام تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بکمال توجہ ان کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔ کہ اتنے میں ابن ام مکتوم جو نابینا تھے ۔ شوق اور وارفتگی کے عالم میں آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسائل پوچھنے لگے ۔ اور یہ نہ دیکھ سکے کہ آپ پہلے کن لوگوں کو شرف مکالمہ بخش رہے ہیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خیال سے کہ یہ لوگ جذبہ تنفر سے کہیں نفس اسلام کی دعوت کو نہ ٹھکرا دیں ، یہ موزوں خیال کیا کہ اس وقت ان کو قدرے تنفض کے ساتھ روک دیا جائے اور ان سرداران قریش سے گفتگو کو برابر جاری رکھا جائے ۔ شاید اس التفات اور توجہ سے ان لوگوں کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا ہوجائے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کو یہ ادا ناگوار معلوم ہوئی ۔ کیونکہ یہ بات وہی علام الغیوب خوب جانتا ہے کہ نتائج کے اعتبار سے کون چیز بہتر تھی ۔ یعنی ان قریش کے بڑے بڑے آدمیوں کے ساتھ بحث ومکاملہ کو جاری رکھنا یا ایک مخلص مسلمان کے ساتھ علم ورافت کے ساتھ گفتگو کرنا ۔ اس پر ان آیات کا نزول ہوا *۔ حل لغات :۔ مرسھا ۔ قیام ۔ وقوع * عبس ۔ اظہار تنفض فرمایا *۔